اتحادی حکومت کو کیوں لایا گیا؟

جب تک پی ٹی آئی بر سرا قتدار رہی تو مسلم لیگ (ن)کی دونوں خواتین یعنی محترمہ مریم نواز اور مریم اورنگزیب صاحبہ کھل کر عمران خان کو مہنگائی کا طعنہ دیتی رہیں۔

 خصوصاََ جب پیٹرول اور ڈیزل کے دام بڑھائے جاتے تھے تو طعنہ دیتی تھیں کہ حکومت عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہی ہے جبکہ عمران حکومت نے ساڑھے 3سال میں 75روپے دام بڑھائے تھے اور ڈالر بھی 183 روپے پررکا ہواتھا مگر جیسے ہی پی ڈی ایم کی راتوں رات حکومت لائی گئی تو صرف چند ہفتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کے دام 85روپے بڑھائے گئے تو دونوں کے منہ سے مہنگائی کا واویلا ختم ہو گیا مگراس نئی مہنگائی کا ذمہ دار بھی عمران خان اور ان کی حکومت کو ٹھہرایا جاتا ہے اور آئی ایم ایف کی ہٹ دھرمیوں کو بھی عمران خان کا مرہون منت قرار دے کر اپنے آپ کو معصوم بنا کر عوام کو بیوقوف بنایا جا رہا ہے ۔

گویا 25کروڑ عوام مسلم لیگ (ن)کو بے گناہ سمجھ رہے ہیں ۔مولانا فضل الرحمان جنہوں نے اسی مہنگائی کے خلاف پی ڈی ایم کو دن رات متحرک کر رکھا تھا شاید اس نئی مہنگائی کے خلاف اپنا منہ سی لیاہے اور سیاسی بیانوں سے اجتناب کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف مرد میدان وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ دھڑ ادھڑ پی ٹی آئی کے وزیروں ،ان کے رشتے داروں کے خلاف مقدمات بنا کر پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی کو ناکام بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔

اگر اسلام آباد ہائی کو رٹ کے چیف جسٹس جناب اطہر من اللہ ان کو لگام نہ دیتے تو وہ جیل بھرنے کا ریکارڈ توڑ ڈالتے ،کمال حکمت عملی سے میاں نواز شریف نے آئی ایم ایف اور مہنگائی سے نمٹنے کے لئے اپنے سمدھی اسحاق ڈار کو لندن میں اپنے پاس روک رکھا ہے جو مکمل صحت یاب ہیں اور بیچارے صنعتکارمفتاح اسماعیل کو تن تنہا میدان میں اتارا ہوا ہے جو مسلم لیگ (ن)کے ماضی کے گناہ چھپانے میں لگے ہوئے ہیں اور پیٹرول ،ڈیزل ،بجلی کے دام بڑھانے میں کافی شہرت پا چکے ہیں ۔

دوسری طرف ہمارے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف ہر طرف ہاتھ پاؤں مار کر قرضے لینے کی تگ ودومیں ہیں اور مسلسل قوم کو ڈالروں کے لالی پاپ دینے میں لگے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود ڈالر 215تک پہنچ چکا ہے اور پی ٹی آئی کے ناکام وزیر خزانہ شوکت ترین جو اپنا سندھ بینک دیوالیہ ہونے سے نہیں بچا سکے وہ آئی ایم ایف کو ورغلاکر ڈالر 250روپے اور ڈیزل 300روپے فی لیٹر ہوجانے کی نوید سنا کر اپنی ناکام پالیسیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے میاں نواز شریف کا’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی طرح ’’ہماری حکومت کیوں ختم کی‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنے ہی لانے والوں کو للکار رہے ہیں ۔

دوسری جانب عوام بجلی کی آنکھ مچولی سے بیزار ہو کر سڑکوں پر آرہے ہیں ۔ صنعتکار، دکاندار، ریسٹورنٹ مالکان رات  9 بجے تک کاروبار بند کرانے کے خلاف اس حکومت کے خلاف صف آرا ہو چکے ہیں ۔پورا ملک معاشی افراتفری سے بیزار ہو چکا ہے،مگر موجودہ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ۔ چند لیٹر پیٹرول کا کوٹہ اشرافیہ اور بیوروکریٹس کا کم کرکے 20 فیصد ان کی تنخواہوں میں اضافہ یہ کیسی بچت کی کہانی دکھائی جا رہی ہے اور یہ بوجھ کون برداشت کرے گا ،یقینا غریب عوام بھگتیں گے ۔میں حیران ہوں کہ ساڑھے 3سال سے ہمارے میڈیا کے معززاراکین ،اینکرز ہر سطح پر پی ٹی آئی حکومت کو دن رات مہنگائی، ناکامیوں کا طعنہ دے کر اب کہاں جا کر اس بے لگام مہنگائی پر چپ سادھے ہوئے ہیں۔

یہ نئے قرضے جو احسن اقبال صاحب پی ٹی آئی حکومت سے پوچھتے تھے کہ کون ادا کرے گا وہ آج اپنے وزیر اعظم سے نہیں پوچھتے کہ چین، قطر، سعودی صنعتکاروں اور بینکوں سے قرضے لیں گے تو کون ان کو ادا کرے گا ۔یہ اگلے سال اگست تک رہنے کی نوید سنانے والے یہ سوا سال کس کس کے کندھوں پر بیٹھ کر عوام کو ستائیں گے ۔

کیاطعنوں اور ماضی کی حکومت پر الزام تراشیوں سے قوم کو سڑکوں پر لانے سے روک لیں گے۔قوم اس حکومت کو لانے والوں سے سوال کر رہی ہے کہ کس وجہ سے اب ان کو آزمایا جا رہا ہے جو 35سال سے دونوں ہاتھوں سے قوم کو لوٹ رہے تھے ۔قوم کیا ان سب کھیلوں اور کرپشنزسے واقف نہیں مگر چپ ہے کیونکہ وہ لانے والوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتی ۔یہی مصلحت ہے اور مجبوری بھی ہے۔

یہ گورنمنٹ جو کہ عوام کو ریلیف دینے کے لئے لائی گئی تھی۔2دن قبل ایک خبر جاری ہو ئی کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے پیٹرول پر10فیصد کی شرح سے ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی، نوٹیفکیشن کے مطابق یہ ان کارگوزپر لاگو نہیں ہو گی جن کی ایل سی کھل چکی ہے،جس پیٹرول پر 10فیصد کسٹم ڈیوٹی ہے اس پرریگو لیٹری ڈیوٹی کاا طلاق نہیں ہو گا۔

ریگو لیٹری ڈیوٹی سے چین سے کسٹمز فری در آمد ات پر ٹیکس وصول ہو سکے گا، ریگو لیٹری ڈیوٹی کا نفاد 30جون سے ہوگا۔افسوس کہ اس اضافہ پر کوئی واویلا کرنے والا بھی دستیاب نہیں ہے اور لگتا ہے کہ سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔