بلاگ
Time 04 جولائی ، 2022

فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں

ہم سمجھتے تھے کہ اب پاکستان میں دوبارہ کوئی قضیہ جنم نہ لے گا ،کیوں کہ صدر آصف علی زرداری نے 18ویں ترمیم کے ذریعے غدار بننے کے تمام راستے بند کردئیے اور ان تمام محرومیوں کا ازالہ بھی کردیا جن کے نتیجے میں عوام عصبیت،لسانیت اور علاقائیت جیسی غلیظ بیماریوں کا شکار ہوجاتے تھے۔ لیکن آصف علی زرداری کو یہ علم نہ تھا کہ ایک دن عمران خان انہی معاملات کو ہوا دے کر اپنی مقبولیت بڑھانے کی کوشش کریں گے جنہیں اقتدار جانے کا اتنا غم ہے کہ وہ (خاکم بدہن )پاکستان توڑنے جیسے بیانات دینے سے بھی گریز نہیں کررہے۔

اس سے پہلےخیبر پختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان نے ایک بیان میں خیبرپختونخواکی پولیس کے ساتھ وفاق پر حملہ کرنے کی بات کی تو ہمیں تھوڑی دیر کے لئے افغانستان میں بیٹھے قوم پرست یاد آگئے جو اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ عمران خان نے 25 مئی کی ریلی میں کارکنوں کے پاس اسلحہ کی موجودگی کا اعتراف کیا تھا جبکہ وزیر اعلیٰ کے پی کے محمود خان نے ایک تقریب میں خطاب کے دوران کہا کہ انہیں پارٹی قیادت کی جانب سے مارچ کی کال آئی تو اس میں صوبائی فورس استعمال کی جائے گی۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کو خط لکھ کر ہمیں الطاف حسین کی یاد دلادی جو اسی طرح پاکستان کے اندرونی معاملات پر اقوم متحدہ کو خط لکھ کر پاکستان میں مداخلت کی باتیں کیا کرتا تھا۔

ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان نے وزارت اعظمی سے ہاتھ دھونے کے بعد کبھی تھوڑی دیر کےلئے بھی یہ نہیں سوچا کہ ملک ہو گا تو اقتدار بھی مل جائے گا۔ خدا نخواستہ ملک پرکوئی آنچ آئی تو نہ ہم ہوں گے نہ عمران خان اور نہ اقتدار۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے تقسیم اور 3ٹکڑے ہونے کا بیان انہوں نے کیوں دیا ؟ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کیونکہ حکیم سعید بہت سال پہلے لکھ چکے ہیں کہ یہ شخص پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔

ان کے دور اقتدار میں اسرائیل کے طیارے اسلام آبادآتے جاتے رہے، وہ ہندوستان میں مودی کی فتح کا خواب دیکھتے رہے، ان کااقتدار کیا گیاوہ مُلک توڑنے کی باتیں کرنے لگے، انہوںنے پاکستان کے ڈی نیوکلیئر ہونے کے حوالے سے بھی غیر ذمے دارانہ بیان دئیے۔عمران خان کو شایدعلم نہیں کہ یہ 1971 نہیں 2022 ہے، ہم کراچی تا خیبر، کشمیر تا گوادر اپنے تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کے چپے چپے کی حفاظت کرنے کے لئےتیار کھڑے ہیں۔

ہمیں تو پہلے ہی خدشہ تھا کہ عمران خان کا اقتدار میں مزید رہنا پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیوں کہ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مکمل کنٹرول آئی ایم ایف کے حوالے کردیا تھا۔انہوں نے ٹھیک کہا تھا کہ اگر انھیں اقتدار سے نکالا گیا تو وہ مزید خطرناک ثابت ہوں گے، ہمیں یہ بات اب سمجھ میں آئی ہے کہ وہ جس کے لئے خطرناک ثابت ہوں گےوہ ہے پاکستان ۔

جس کے معزز اداروں اور ان اداروں کے سربراہوں کے بارے میں وہ نامناسب بیانات داغتےپھر رہے ہیں ۔ فیصلہ ساز سوچیں کہ انھوں نے ہم پر کس شخص کو اور کیوں مسلط کئے رکھا، کیا جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک کا کوئی بھی بڑاعہدہ کسی ایسے عاقبت نا اندیش اور کھلنڈرےشخص کو دیاجانا چاہیے تھا ؟ اگر نہیں تو پھر پاکستان کے ساتھ ایسا کیوں کیا گیا؟موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ہم عام انتخابات میں بہت سوچ سمجھ کر ووٹ دیں تاکہ ایسے لوگ اقتدار میں نہ آسکیں جنہیں ملک نہیں بلکہ اپنا اقتدار عزیز ہوتا ہے۔ عرض ہے کہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کرکریں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔