بلاگ
Time 07 جولائی ، 2022

شہباز شریف کے 2 کارنامے

گزشتہ مالی سال کے دوران تجارتی خسارے میں 57فیصد اضافہ ہوا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری درآمدات گزشتہ برس کے مقابلے میں 43.45فیصد بڑھ گئیں ۔2020-21ء کے دوران پاکستان کا امپورٹ بل 56.12فیصد تھا جو 2021-22کے دوران 80.51بلین ڈالر تک پہنچ گیا یوں تجارتی خسارہ 30.96بلین ڈالر سے بڑھ کر 48.66بلین ڈالر ہوگیا۔

امپورٹ بل میں ایک بڑا حصہ توانائی سے متعلقہ درآمدات کا ہے۔یکم جولائی 2021ء سے 30جون2022ء تک 3.4بلین ڈالر ایل این جی کی درآمد پر خرچ کئے گئے،اس دوران تقریباً 21 بلین ڈالر کا آئل امپورٹ کیا گیا۔یعنی کم وبیش 25 بلین ڈالر ایک سال کے دوران توانائی کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ ہوئے۔اگلا سوال یہ ہے کہ توانائی کی کھپت کیوں بڑھتی جارہی ہے؟اس لئے کہ موزوں پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہ ہونے کے باعث ہر شخص پہلی فرصت میں ذاتی گاڑی کا بندوبست کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی سفید پوش شخص کو کوئی اچھی ملازمت ملتی ہے یا پھر چھوٹا موٹا کاروبار شروع ہوتا ہے تو اس کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ نقد نہیں تو کسی بینک سے قسطوں پر ہی گاڑی خرید لی جائے یا پھر کوئی پرانی موٹر کار لے لی جائے۔ہمارے ہاں رجسٹرڈ گاڑیوں کی تعداد ماضی کے سب ریکارڈ توڑ رہی ہے۔2018ء میں تقریباً3لاکھ نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن ہوئی اور گزشتہ مالی سال کے دوران بھی کم و بیش اتنی ہی گاڑیوں کا اندراج کیا گیا۔سنگاپوراور ترکی جیسے نسبتاً خوشحال ممالک میں گاڑیاں رکھنے کا رجحان بہت کم ہے۔

سنگاپور میں 1000میں سے صرف151جبکہ ترکی میں 1000میں سے صرف257افراد کے پاس موٹر کار ہے۔اور پھر اگر ترقی یافتہ ممالک میں لوگوں کے پاس ذاتی گاڑیاں ہیں بھی تو ان کا استعمال بہت کم ہے کیونکہ وہاں پبلک ٹرانسپورٹ کی نہایت شاندار سہولت دستیاب ہے۔ پوری دنیا کو یکساں طور پر توانائی کے بحران کا سامنا ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنا کر لوگوں کو ذاتی گاڑیوں کے بجائے بسوں اور ریل گاڑیوں پر سفر کرنے کی طرف مائل کیا جائے۔ بالخصوص بڑے شہروں میں جہاں گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث ٹریفک میں بے تحاشا اضافہ ہورہا ہے ،وہاں اربن ٹرانسپورٹ سروس کے ذریعے توانائی کے ساتھ ساتھ وقت بھی بچایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں کبھی گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سسٹم (جی ٹی ایس) کا بہترین نیٹ ورک ہوا کرتا تھا،پاکستان ریلوے کا سفر نہایت آرام دہ اور قابل ترجیح ہوا کرتا تھا لیکن پھر نجانے کس کی نظر لگ گئی اور یہ سارا نظام بیخ و بن سے اکھاڑ دیا گیا۔بہر حال جب شہبازشریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے پر توجہ دی اور لاہور سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں میٹرو بس سروس کا آغاز کیا جسے’جنگلہ بس سروس‘ کہہ کر اس کا مذاق اُڑایا گیا۔وہ لوگ جن کی آنکھوں پر سیاسی تعصب کا موتیا اُتر آیا ہے یا پھر اذہان وقلوب پر نفرت کی مہر چسپاں کردی گئی ہے ،شاید آج بھی اس منصوبے کے حق میں نہ ہوںلیکن یہ عام آدمی کے لئے اتنی بڑی سہولت ہے کہ آسودہ حال لوگ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔

اسی سمت میں ایک اور انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے شہبازشریف نے لاہور میں اورنج ٹرین کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔حسب روایت اس کی بھی بھرپور مخالفت کی گئی۔اور کوئی بہانہ یا جواز میسر نہ آیا تو آثارِ قدیمہ کے مجاوروں نے صفِ ماتم بچھا دی کہ تاریخی عمارتوں کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔میں نے 23اگست 2016ء کو انہی صفحات پر لکھے گئے کالم میں سوال اُٹھایا کہ یہ کیسا استدلال ہے، زندہ انسانوں کے کوئی حقوق نہیں مگرخستہ حال عمارتیں زیادہ اہم ہیں۔یہ معاملہ بہرحال عدالت پہنچا تو لاہور ہائیکورٹ نے 19اگست 2016کو حکم امتناع جاری کردیا۔

سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی مگر طویل التوا کے بعد 8دسمبر2017ء کو تب اسٹے آرڈر ختم کیا گیا۔جیسے تیسے یہ منصوبہ مکمل ہوا۔کئی بار سوچا کہ اورنج ٹرین پر سفر کرکے دیکھا جائے مگر مصروفیت آڑے آتی رہی ۔چند روز پہلے گھر سے گاڑی لیکر نکلا ،ٹھوکر نیاز بیگ اسٹیشن پر گاڑی کھڑی کرکے اورنج ٹرین پر سوار ہوا اور ریلوے اسٹیشن تک سفر کیا۔یقین کیجئے یہ میری زندگی کا نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔یوں لگا جیسے یہ لاہور نہیں لندن ہے ۔سہولیات بدیسی ہیں مگر لوگ دیسی ۔ 40روپے کاٹکٹ ،نہایت آرام دہ اور تیز ترین سفر ۔کار پہ جاتا توسڑکوں پر بے پناہ رش کے باعث گھنٹہ لگ جاتا مگر اورنج ٹرین نے لگ بھگ 25منٹ میں منزل مقصود تک پہنچا دیا۔

مجھے یاد ہے ملتا ن ،بہاولپور سمیت پنجاب کے مختلف شہرو ں میں ہاتھ سے چلائے جانے والے رکشے ہوا کرتے تھے،نوازشریف نے انہیں ختم کرکے موٹر رکشے تقسیم کئے اور پھر جب موٹر وے بنائی تو لوگ کہا کرتے تھے کہ پاکستان جیسا غریب ملک اس عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔لیکن میں سمجھتا ہوں نوازشریف اور کچھ بھی نہ کرتے تو یہی 2کارنامے کافی تھے۔اسی طرح شہبازشریف سے ہزاروں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اورنج ٹرین اور میٹرو بس ان کے2ایسے کارنامے ہیں جن کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔