بلاگ
Time 09 جولائی ، 2022

انصاف نامعلوم اور احتساب لاپتہ ہوگیا

نظریہ ٔپاکستان، اسلامی نظام اور غداری کی طرح احتساب کی اصطلاح بھی ہماری تاریخ میں ایک پرچھائیں کی طرح ساتھ ساتھ چلی ہے۔ حیدر آباد ٹریبونل میں مرحوم ولی خان نے عدالت سے نظریۂ پاکستان کی تعریف دریافت کی تھی۔ یہ سوال آج بھی تشنہ جواب ہے۔ اسلامی نظام کے بارے میں جنرل ضیاالحق اور ان کے عسکری رفقا کی حقیقی رائے جاننا ہو تو مرحوم ضیا شاہد کی کتاب ’باتیں سیاست دانوں کی‘ دیکھ لیجئے۔ غداری کا الزام عبدالغفار خان اور سہروردی سے شروع ہوا تھا اور ایک حالیہ مبینہ آڈیو ٹیپ تک اس کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔

احتساب کی روایت وزیراعلیٰ سندھ ایوب کھوڑو کے خلاف بدعنوانی کے ساٹھ الزامات سے شروع ہوئی تھی۔ ایوب خان نے احتساب کے نام پر سیاست دانوں کی ایک پوری فصل اجاڑ دی۔ یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے اس عمل میں اپنا حصہ ڈالا۔ ضیاالحق نے ’پہلے احتساب پھر انتخاب‘ کے نعرے پر 11 برس گزار دیے۔ 

نیز 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں دیانت دار سیاست دانوں کا ایسا قبیلہ عطا کیا جو آج تک ہمارے سیاسی تالاب کو گدلا کئے ہوئے ہے۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف احتساب کے نام پر انتقام کا کھیل کھیلتے رہے۔ کبھی حامد میر سے دریافت کیجئے گا کہ نواز شریف کے احتسابی سالار سیف الرحمٰن نے کمرہ عدالت میں آصف علی زرداری سے کس طور معافی مانگی تھی۔ پرویز مشرف قومی احتساب بیورو (نیب) کا پشتارہ اٹھائے ہوئے نازل ہوئے۔ نیب سارنگی کا وہ گز تھا جس کی مدد سے راگ راگنی کے حسب منشا سْر نکالنا مقصود تھا۔ پرچھائیں کا اپنا وجود نہیں ہوتا۔ روشنی سے فاصلے کے ساتھ ساتھ اس کا حجم بڑھتا گھٹتا رہتا ہے۔

مئی 1985ء میں منیر احمد منیر نے پنجاب کے سابق آئی جی پولیس رائو عبدالرشید کا ایک تہلکہ خیز انٹرویو شائع کیا تھا۔ اس کے کچھ اقتباسات چشم کشا ہیں۔ بھٹو صاحب نے اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ کے نام سے رائو رشید کی سربراہی میں ایک اینٹی کرپشن ادارہ قائم کیا تھا۔ ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود تھے۔ 

سعید احمد خان بھٹو صاحب کے چیف سکیورٹی افسر تھے۔ یاد رہے کہ نواب احمد خان قتل کیس میں مسعود محمود اور سعید احمد خان بھٹو صاحب کے خلاف سلطانی گواہ بنے۔ رائو رشید نے سعید احمد خان کا طریقۂ واردات بیان کیا کہ ایک نوٹ لکھ کر بھٹو صاحب کو بھیج دیتے تھے کہ فلاں آدمی آپ کا مخالف ہے اس کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے۔ اگر بھٹو صاحب نے yes کر دیا تو سعید احمد خان کے حکم پر پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی۔ متعلقہ شخص سعید احمد خان کے پاس پہنچتا۔ 

وہ سودے بازی کرتے تھے کہ اتنے پیسے دے دو، آپ کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی۔ رائو صاحب کے بقول، ’یحییٰ خان کا ایک دوست زیر عتاب آگیا۔ وہ مجھے گھر پر ملنے آیا۔ اس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا۔ میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ اس نے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس کھول کر دکھایا کہ سعید احمد خان کے پاس لے جا رہا ہوں۔ یہ دوسری قسط اس کو دے رہا ہوں۔ اس (گالی) نے میرے خلاف انکوائری شر وع کر رکھی ہے۔ اب کہتا ہے، میری لڑکی کی شادی ہے، پیسے چاہئیں‘‘۔ یہ پچاس برس پرانے معاملات ہیں۔ اب ہمارا اخلاقی زوال بڑھ گیا ہے۔

پاکستان کے سابق قائم مقام چیف جسٹس جاوید اقبال یقیناً نہایت قابل، دیانت دار اور پارسا انسان ہیں۔ اسلامی فقہ میں اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم اے کی ڈگری بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ریاست کی خدمت پر ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ مئی 2011 ءمیں اسامہ بن لادن مارے گئے تو ایبٹ آباد کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال تھے۔ اس کمیشن کی رپورٹ تاحال منصہ شہود پر نہیں آئی۔ لاپتہ افراد کے بارے میں کمیشن قائم کیا گیا تو جاوید اقبال سربراہ قرار پائے۔ یہ کمیشن ہزاروں افراد بازیاب کر چکا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتاتا کہ یہ کس پاتال سے بازیاب ہوئے ہیں۔ اکتوبر 2017ء میں جسٹس جاوید اقبال کو نیب کا چیئرمین بھی مقرر کر دیا گیا۔ 

2019ء میں محترم جاوید اقبال کے بارے میں ایک مبینہ ویڈیو سامنے آئی تھی جو چند روز خبروں میں رہ کر دم توڑ گئی۔ متعلقہ ویڈیو میں محترم جاوید اقبال طیبہ گل نامی ایک خاتون سے نازیبا گفتگو کر رہے تھے۔ عمران حکومت نے اس بیہودہ ویڈیو پر کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اکتوبر 2021 ءمیں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے جاوید اقبال کو بطور سربراہ احتساب تاحکم ثانی توسیع عطا کر دی گئی۔ ترے جنوں کا خدا سلسلہ دراز کرے… جاوید اقبال کے ضمن میں یہ سلسلہ 2جون 2022ء تک چلا۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں لاپتہ افراد کے ضمن میں سرگرم خاتون محترمہ آمنہ مسعود نے نکتہ اٹھایا کہ اخلاقی الزامات میں ملوث فرد کو لاپتہ افراد کمیشن کا سربراہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اسے خواتین سے بھی معاملات طے کرنا ہوتے ہیں۔ 

اس پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کے سابق سربراہ جسٹس جاوید اقبال اور طیبہ گل کو طلب کر لیا۔ جسٹس صاحب نے حاضری کی زحمت نہیں کی البتہ طیبہ گل نے اپنی بپتا کی ایسی روح فرسا تفصیلات بیان کی ہیں جنہیں قلم دہرانے سے قاصر ہے۔ انہوں نے جنسی ہراسانی، جھوٹے مقدمات، جسمانی تشدد، جنسی زیادتی، مالی کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات عائد کئے ہیں۔ 

محترمہ طیبہ گل نے سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور ڈی جی نیب (لاہور) میجر (ر) شہزاد سلیم کو بھی شریکِ جرم ٹھہرایا ہے۔ گویا ایوان وزیراعظم سے عدالت اور احتسابی بندوبست سے پولیس تک انصاف کا کہیں نام و نشان نہیں۔ برسوں پہلے لاہور میں شملہ پہاڑی کے آس پاس ایک نیم پاگل شخص آوازہ لگایا کرتا تھا ’ہائیکورٹ دے 26جلعے، پر انصاف کتے نئیں‘‘۔ (ہائیکورٹ کے 26اضلاع ہیں لیکن انصاف کہیں نہیں)۔ وہ باخبر دیوانہ آج زندہ ہوتا تو طیبہ گل کی کہانی سن کر آوازہ لگاتا۔ ’پاکستان میں انصاف نامعلوم افراد کے ہتھے چڑھ گیا ہے اور احتساب عید کی چھٹیاں منانے گیا ہے‘۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائے دیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔