آئی ایم ایف معاہدہ۔ اسحاق ڈار کی کمی

اور بالآخر آئی ایم ایف نے پاکستان کو تگنی کا ناچ نچانے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سمیت دیگر سخت شرائط تسلیم کروانے کے بعد معاہدے پر آمادگی تو ظاہر کردی مگر معاہدے کی حتمی منظوری آئی ایم ایف بورڈ دے گا اور اس سے قبل پاکستان کو 1.17 ارب ڈالر کی قسط ملنے کی کوئی توقع نہیں۔

 معاہدے کی منظوری میں تاخیر کے باعث دیگر عالمی مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے پاکستان کو فی الحال کوئی امداد ملنے کی امید نہیں۔ ایسی صورتحال میں حکومت دبائو کا شکار ہے جس سے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی فائدہ اٹھارہی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ یہ کہنے میں کافی حد تک حق بجانب ہیں کہ آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر کیلئے ہمیں تگنی کا ناچ نچایا اور ہم سے وہ سخت شرائط بھی منوائیں جو ہم ماننے کو تیار نہ تھے۔

 آئی ایم ایف ہمیشہ مشکل صورتحال میں حکومتوں کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتا ہے، اس سے مذاکرات ایک پیچیدہ مرحلہ ہے جس کیلئے وسیع تجربے کے حامل شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بار آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے پیش نظر مذاکرات کے وقت سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی کمی شدت سے محسوس کی گئی جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔

 گزشتہ دنوں سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ 2013ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ دبئی میں ہونے والے مذاکرات میں وہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ٹیم میں شامل تھے۔ ایک موقع پر جب آئی ایم ایف نے سخت شرائط معاہدے میں شامل کرنے پر اصرار کیا تو اسحاق ڈار یہ کہہ کر مذاکرات سے واک آئوٹ کرگئے کہ وہ ملکی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ،جس کے بعد آئی ایم ایف کے رویے میں لچک دیکھنے میں آئی اور اسے سخت شرائط واپس لینا پڑیں۔ اِسی طرح 1998ء کے ایٹمی دھماکے کے باعث جب پاکستان عالمی پابندیوں کا شکار تھا، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح 300ملین ڈالر پر آگئے تھے اور دنیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا انتظار کررہی تھی۔

 ایسی نازک صورتحال میں اسحاق ڈار نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایا اور ایٹمی دھماکوں کے باعث پاکستان پر لگنے والی عالمی پابندیوں کے نتیجے میں معاشی بحران میں آئی ایم ایف سے ریسکیو پیکیج پر کامیاب مذاکرات کئے ،جس پر مخالفین بھی ان کے معترف ہیں۔ 

اسی طرح نواز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں جب ایک روز پرائیویٹ بینکوں نے مل کر روپے کی قدر کو اچانک گرادیا جس سے پیٹرولیم مصنوعات سمیت امپورٹڈ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ متوقع تھا تو اسحاق ڈار نے گورنر اسٹیٹ بینک سمیت تمام بینکوں کے سربراہان کو اسلام آباد طلب کیا اور انہیں سختی سے ہدایت کی کہ شام تک روپیہ اپنی سابقہ قدر تک آجائے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ وہ جب تک وزیر خزانہ رہے، ڈالر 100 روپے کے آس پاس رہا۔ میں اسحاق ڈار کی صلاحیتوں کا معترف ہوں۔ مجھے انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع اُس وقت ملا جب میں ایف پی سی سی آئی کا نائب صدر تھا اور وہ وزیر خزانہ کی حیثیت سے کئی بار فیڈریشن ہائوس تشریف لائے۔ 

میں نے انہیں معیشت پر دسترس رکھنے والا Workaholic اورمحب وطن شخص پایا۔میں نے اسحاق ڈار کو بزنس مینوں سے ویڈیو لنک پر معیشت پر انٹریکشن کیلئے مدعو کیا جس پر پی ٹی آئی دور حکومت میں حکومتی اداروںنے برا منایا۔وہ پیشے کے لحاظ سے چارٹرڈ اکائونٹینٹ ہیں اور دنیا کے انٹرنیشنل فنانشل آرگنائزیشن ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور اسلامک ڈویلپمنٹ بینک جیسے عالمی اداروں کے بورڈ پر رہ چکے ہیں جبکہ وہ یو اے ای کی شاہی فیملی کے فنانشل ایڈوائزر بھی رہ چکے ہیں۔ 

افسوس کہ ان کی ملکی خدمات اور قربانیوں کے باوجود ان پر ٹیکس ریٹرن جمع نہ کرانے کا ایک مقدمہ بنایا گیا اور ایک محب وطن شخص کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بناکر اس کی کردار کشی کی گئی جس کے نتیجے میں انہیں جلاوطنی کی اذیت برداشت کرنا پڑی۔اسحاق ڈار جب تک وزیر خزانہ رہے، ٹیکس وصولی میں دگنا اضافہ ہوا۔ وہ آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کیساتھ معاملات حل کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان کے وطن واپس لوٹنے کا اعلان خوش آئند ہے جس کا بزنس کمیونٹی نے خیر مقدم کیا ہے اور اس طرح آنیوالے وقت میں شہباز شریف کی ٹیم کو آئی ایم ایف کےاکابر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والا شخص میسر ہوگا۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر آئی ایم ایف معاہدے کی بحالی کیلئے پاکستان پر اتنی سخت شرائط عائد نہ کرتا تو پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج کچھ مختلف ہوتے لیکن مسلم لیگ (ن) نے سیاست نہیں ریاست کو بچایا اور اگر حکومت مشکل فیصلوں کا بوجھ نہ اٹھاتی تو پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ کرجاتا۔ آئی ایم ایف کا حالیہ سخت معاہدہ آنیوالے وقت میں بھی مسلم لیگ (ن) کا پیچھا نہیں چھوڑے گا اور اگر عمران خان برسراقتدار آئے تو وہ مستقبل میں ہونے والی مہنگائی کا ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کےدور حکومت میں آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کو ٹھہرائیں گے ،جس کی (ن) لیگ کو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔