’2030 تک ہیپاٹائٹس بی اور سی کا خاتمہ نہ کیا تو پاکستان پر سفری پابندیاں لگ سکتی ہیں‘

ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں پاکستان میں ہر 15 منٹ میں ایک شخص جاں بحق ہو جاتا ہے: ڈاکٹر لبنیٰ کمانی۔
 ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں پاکستان میں ہر 15 منٹ میں ایک شخص جاں بحق ہو جاتا ہے: ڈاکٹر لبنیٰ کمانی۔

کراچی: دنیا کے بیشتر ممالک 2030 تک ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن اگر پاکستان میں یہ مرض اگلے 8 سالوں میں ختم نہ کیا جا سکا تو اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ پاکستان پر اس حوالے سے سفری پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین امراض پیٹ و جگر نے ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے 2022 کی مناسبت سے کراچی پریس کلب میں آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

پی جی ایل ڈی ایس سے وابستہ ماہرین امراض پیٹ و جگر اور دیگر افراد نے اس موقع پر وائرل ہیپاٹائٹس کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے ایک مختصر سی واک بھی کی۔

ورلڈ ہیپاٹائٹس ڈے کی مناسبت سے منعقدہ آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں پاکستان میں ہر 15 منٹ میں ایک شخص جاں بحق ہو جاتا ہے، دنیا ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کی طرف بڑھ رہی ہے جبکہ پاکستان میں بدقسمتی سے اس مرض میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کے لیے گھر گھر اسکریننگ کرنا ہو گی جس کے بعد ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا افراد کو مفت ادویات دے کر اس مرض کے خاتمے کی طرف بڑھنا ہو گا۔

ہیپاٹائٹس کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے ایک مختصر سی واک بھی کی۔
ہیپاٹائٹس کے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے ایک مختصر سی واک بھی کی۔

جناح اسپتال سے وابستہ گیسٹرواینٹرولوجسٹ ڈاکٹر نازش بٹ کا کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی پاکستان میں کورونا سے زیادہ مہلک امراض ثابت ہو رہے ہیں جن کے نتیجے میں ہر سال تقریبا 35 سے 40 ہزار افراد جان بحق ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے اس موقع پر گندے پانی سے پھیلنے والے ہیپاٹائٹس A اور E کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ وائرس بارشوں کے بعد پیلیا اور یرقان کا سبب بنتے ہیں، حاملہ خواتین اگر ان وائرسز سے متاثر ہو جائیں تو یہ ماں اور بچے کے لیے کافی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

پی جی ایل ڈی ایس کے سرپرست اعلی اور دارالصحت اسپتال سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی سے بچنے کے لیے آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے، پی جی ایل ڈی ایس گزشتہ چار سالوں سے کراچی پریس کلب اور صحافیوں کے تعاون سے سے اس مرض کے متعلق آگاہی پھیلانے کی کوششیں کر رہی ہے، این جی اوز اور مخیر حضرات کے تعاون سے ایسے صحافی حضرات جو اس مرض میں مبتلا ہیں ان کے علاج کی بھی کوششیں جاری ہیں۔

شہری علاقوں میں آگاہی پھیلنے کے سبب اس مرض کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔
 شہری علاقوں میں آگاہی پھیلنے کے سبب اس مرض کی شدت میں کمی آ رہی ہے۔ 

ڈاؤ یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر امان اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ آلودہ خون، سرنجز کا دوبارہ استعمال اور حجاموں کے آلات بغیر اسٹرلائزیشن ایک سے زیادہ افراد پر استعمال ہیپاٹائٹس بی اور سی کے پھیلاؤ کا ایک اہم سبب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہری علاقوں میں آگاہی پھیلنے کے سبب اس مرض کی شدت میں کمی آ رہی ہے لیکن دیہی علاقوں میں ابھی تک لوگ اس مرض میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

لیاقت نیشنل اسپتال سے وابستہ معروف گیسٹرو اینٹرولوجسٹ ڈاکٹر سجاد جمیل کا کہنا تھا کہ کہ سندھ پنجاب اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ہیپاٹائٹس بی اور سی آگ کی طرح پھیل رہا ہے، سندھ میں نوابشاہ اور پنجاب میں گجرانوالہ میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کی شرح 15 فیصد سے زائد ہے، سندھ پنجاب اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں لاکھوں لوگ اس مرض میں مبتلا ہیں اور مزید لوگوں کو اس مرض میں مبتلا کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں مقامی زبانوں میں آگاہی پھیلانا کر ہیپاٹائٹس بی اور سی کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے جبکہ اس مرض میں مبتلا افراد کو علاج فراہم کرکے ان کی جانیں بھی بچائی جاسکتی ہیں۔

اس موقع پاک جی آئی اینڈ لیور ڈیزیز سوسائٹی (پی جی ایل ڈی ایس) کی جانب سے کراچی پریس کلب میں صحافیوں اور ان کے اہلخانہ کے لیے ہیپاٹائٹس بی اور سی کی اسکریننگ کا بھی اہتمام کیا گیا۔

مزید خبریں :