01 اگست ، 2022
وطن عزیز کے جہاندیدہ دانشور ،پختہ کار افسر اورگرگ باراں دیدہ تصور کئےجارہے سیاست کار مل بیٹھتے ہیں تو حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے سیاسی موضوعات پر گھنٹوں گفتگو ہوتی ہے۔ ٹی وی چینلز کا بیشتر وقت اس غور فکر کی نذر ہوجاتا ہے کہ ملکی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔
پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کا اقتدار برقرار رہ پائے گا یا نہیں ؟مرکز میں شہبازشریف کب تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان رہیں گے ؟طویل بحث کے بعد تان یہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ عوام سے رجوع کرکے نیا مینڈیٹ حاصل کیا جائے۔یقیناً جمہوریت کا تقاضا یہی ہے کہ عام انتخابات ہوں مگر جب یہ مطالبہ تکرار کے ساتھ سامنے آتا ہے تو نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کی طرف توجہ مبذول ہوجاتی ہے۔
فیض کے الفاظ مستعار لوں تو ’’لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجئے...اب بھی دلکش ہے تیرا حسن مگر کیا کیجئے۔‘‘دل سے اِک ہوک سی اُٹھتی ہے اور سوچتا ہوں ،عوام سے رجوع کرنے کا خیال تب ہی کیوں آتا ہے جب ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ لگوا کر اپنے اقتدار کی توثیق کروانا مقصود ہوتا ہے؟کیا عوام کا مقصد حیات یہی ہے کہ جب نیا مینڈیٹ لینے کی ضرورت پڑے تو انہیں یاد کیا جائے اور پھرطویل عرصہ کے لئے فراموش کردیا جائے؟
مہنگائی نے عام آدمی کی کمر پر کیسے چابک رسید کئےہیں ،بے روزگاری کے تازیانے نے کس طرح غریب آدمی کی چمڑی اُدھیڑ دی ہے اور لوگ اس سیاسی دھماچوکڑی کا بوجھ اپنی خمیدہ کمر پر لاد کر کیسے رینگتے پھر رہے ہیں ،آپ یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں مگر ایک پل کےلئے یہ تصور کرنے کا تکلف تو گوارہ کرلیجئے کہ جن عوام کی زندگی بھر کی کمائی سیلاب بہا کرلے گیا اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ،کیا آپ ان سے رجوع محض اس لئے کرنا چاہتے ہیں کہ حق حکمرانی کسےملناچاہئے ؟
جنوبی پنجاب بالخصوص ڈیرہ غازی خان میں لوگ سیلاب کے باعث بے گھر ہیں ،خیبر پختونخوا کے متعدد علاقوں میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچادی ہے ،بلوچستان میں لوگ امداد کے منتظر ہیں ،کراچی میں بارشوں نے زندگی اجیرن کردی مگر آپ کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ چند حلقوں میں ضمنی الیکشن ہوں یا پھر پورے ملک میں انتخابات کا بگل بجادیا جائے؟وہ سیاست گر جو صبح شام عوام کی مسیحائی کا دم بھرتے ہیں ،عام آدمی کی بات کرتے ہیں ،نجانے انہیں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد اپنے محلات میں چین کی نیند کیسے آجاتی ہے۔بقول میر تقی میر
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
بلوچستان کو سندھ سے ملانے والی آر سی ڈی شاہراہ سیلابی ریلے سے متاثر ہوئی ہے ۔لسبیلہ میں برساتی نالوں پر قائم تین برج بہہ جانے سے وسیع علاقہ زیر آب آگیا ہے اور لوگ اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں ۔کیچ ،گوادر ،خضداراور جھل مگسی سمیت دیگر کئی اضلاع میں بھی صورتحال تشویشناک ہے۔سوشل میڈیا پر دل دہلادینے والی ویڈیوز زیر گردش ہیں ۔قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا ادارہ ’’این ڈی ایم اے‘‘کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔
ڈیرہ غازی خان میں حفاظتی بند ٹوٹنے کے بعدمقامی باشندوں کو بہت بڑے پیمانے پر گھرچھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑی۔یہ سب موسمیاتی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہے مگر ہمارے ہاں اس حوالے سے سنجیدہ نوعیت کے اقدامات کئے جانے کے بجائے ماحولیات کی وزارت کو ہمیشہ مخولیات کی وزارت سمجھا گیا۔
لیہ کی دونوں ، راجن پورکی تینوں اور ڈیرہ غازیخان سے قومی اسمبلی کی چاروں نشستیں پی ٹی آئی نے جیتیں مگر یہ منتخب عوامی نمائندے کہیں دکھائی نہیں دے رہے ۔عثمان بزدار جنہیں کپتان نے ’’وسیم اکرم پلس‘‘قرار دیا تھا ،وہ بھی منظر سے غائب ہیں ۔اگر معاملہ غیر ملکی سازش کا ہوتا تو شاید یہ سب متحرک اور فعال ہوجاتے مگر عوام سے تب رجوع کیا جائے گا جب ووٹ لینے کا موقع آئے گا۔
شام سے تعلق رکھنے والے معصوم بچے ایلان کردی کی لاش نے دنیا بھر کو جھنجھوڑ کررکھ دیا مگر خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی معصوم بچی سارہ جس کی لاش کھجور کے پتوں سے بنی ایک چٹائی کے پاس کیچڑ میں لت پت پڑی تھی ،اسے دیکھنے کے بعد بھی کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔سیاسی تماشا نہ صرف پوری آب و تاب سے جاری ہے بلکہ اس میں نت نئے کردار شامل ہوتے جارہے ہیں۔حق ِحکمرانی جتلانے اور مقبولیت پہ اِترانے والوں کو یہ فکر کھائے جارہی ہے کہ الیکشن کب،کہاں اور کیسے ہوں ؟کس طرح کامیابی سمیٹی جائے اور سیاسی مخالفین کی بساط لپیٹی جائے ۔جن سے مینڈیٹ لینا ہے ،وہ کس حال میں ہیں ،اس بات سے کسی کو کوئی غرض نہیں ۔سید امین اشرف کے الفاظ بروئے کار لائوں تو
گرداب چیختا ہے کہ دریا اداس ہے
دریا یہ کہہ رہا ہے کہ کنارہ نہیں رہا
عوام سے رجوع ضرور کریں ،انہیں غلامی سے بچائیں ،ووٹ کو عزت دلوائیں یا پھر جیئے بھٹو کے نعرے لگوائیں لیکن پہلے انہیں ڈوبنے سے بچانے کی تدبیر تو کرلیں ۔خاکم بدہن ،مشرقی پاکستان میں ایک سیلاب ہی پاکستانیت کو بہا لے گیا تھا ۔شیخ مجیب کہتا تھا ،فوجی آپریشن کے لئے دستیاب ہیلی کاپٹر سیلاب زدہ عوام کو بچانے کے لئے کیوں میسر نہیں ۔
اگر سیلاب میں مرنے والے بنگالیوں کو دفنانا بھی امریکیوں نے ہے تو پھر ہم پاکستان کے ساتھ کیوں رہیں ؟لیکن نہ جانے کب پردہ گرے گا اور یہ تماشا ختم ہوگا؟برسہابرس سے جاری اس تماشے میں جب کبھی مختصر سا وقفہ آتا ہے تو لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ آخر ہوا کیا ہے؟آنکھیں نہیں رہیں کہ تماشا نہیں رہا؟
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔