بلاگ
Time 05 اگست ، 2022

گوادر سے روشنی پھوٹ رہی ہے

بلوچستان ہمارا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہمارے پیارے پاکستان کا 44فیصد رقبہ اسی صوبے پر مشتمل ہے، اس صوبے میں بے شمار معدنی وسائل ہیں، یہاں سیاحت کے لئے بہت کچھ ہے، ساڑھے سات سو کلو میٹر طویل ساحلی پٹی ہے، اسی ساحل پر گہرے پانیوں کے نظارے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں زراعت، ماہی گیری اور مویشی پالنے کے وسیع مواقع ہیں، ہم بہت سی زمینوں کو زیر کاشت لا کر نہ صرف خود کفالت کی منزل حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنی برآمدات میں اضافہ بھی کرسکتے ہیں۔

 اسی طرح ماہی گیری کے شعبے میں آسانیاں پیدا کرکے اسے فروغ دے کر دنیا بھر کو مچھلی برآمد کرسکتے ہیں۔ بلوچستان میں مویشی پال کر دودھ اور گوشت کی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں اس وقت ڈھائی کروڑ لیٹردودھ کی ضرورت ہے جب کہ ہماری پیداوار صرف ڈیڑھ کروڑ لیٹر ہے، ایک کروڑ لیٹر دودھ کی کمی کے بارے میں ہمیں معلوم نہیں کہ یہ کس طریقے سے پوری کی جا رہی ہے، دودھ کی طرح ہمیں گوشت کی کمی کا بھی سامنا ہے، یہ کمی نہ صرف پوری ہوسکتی ہے بلکہ ہم اس قابل ہو سکتے ہیں کہ گوشت برآمد کیا جاسکے۔ 

گوادر پورٹ، آزاد تجارتی زون اور خصوصی اقتصادی زون کی ترقی سے بلوچستان سرمایہ کاروں کیلئے ایک پرکشش مقام بن چکا ہے، اس سلسلے میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے گوادر پورٹ سرمایہ کاروں کیلئے پرکشش سہولتوں کے ساتھ حاضر ہے۔ گوادر کی ترقی کیلئے دو اہم ادارے گوادر پورٹ اتھارٹی اور گوادر بورڈ آف ڈویلپمنٹ کام کر رہے ہیں۔ اس وقت گوادر بندر گاہ سیوریج ٹریٹمنٹ، پاور جنریشن، آئل اینڈ گیس ٹرانزٹ ٹریڈ،ا سٹوریج، ایکسپورٹ بانڈڈ زون ڈویلپمنٹ سمیت کئی دیگر شعبوں میں بڑی صلاحیت کی مالک ہے۔ 

چین کے تیس سے زائدسرمایہ کاروں نے 450ملین ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری گوادر میں کر رکھی ہے۔ گوادر میں انفراسٹرکچر کے کئی منصوبوں سمیت ایک نیا شاندار انٹرنیشنل ایئر پورٹ تکمیل کے مراحل میں ہے، یہ منصوبے گوادر کو یادگار بنا دیں گے۔گوادر پورٹ کی کامیابی کے پیش نظر حکومت نےکئی اقدامات کئے ہیں، بلوچستان میں 23سال کیلئے ٹیکس کی چھوٹ دے دی ہے، منصوبوں کی تعمیر کے دوران آلات کی درآمد پر ڈیوٹی میں 100فیصد چھوٹ ہے۔ زمین کی 99سالہ لیز بھی ہے۔ 

گوادر میں ویزے کے بندوبست کے لئے انتظامی اقدامات اور حفاظتی اقدامات سمیت کئی اقدامات ملیں گے۔ گوادر بندرگاہ، شاہراہ ریشم اکنامک بیلٹ اور میری ٹائم سلک روٹ کے سنگم پر بحیرہ عرب پر ہے۔ گوادر قدرتی طور پر گہرے پانیوں پر ایسی بندرگاہ ہے جو برف سے پاک ہے۔ اس کی منفرد جغرافیائی حیثیت ہے، اس کے یقینی طور پر فوائد ہیں۔ گوادر فری زون 22 ہزار ایکڑ پر محیط ہے۔ یہاں ذخیرہ کرنے کی بڑی اور بہترسہولتیں ہیں اس لحاظ سے گوادر پورے خطے میں ایک منفرد ترسیلی بندرگاہ ہوگی۔گوادر پورٹ کی تعمیر تیزی سے جاری ہے گزشتہ پانچ برسوں میں گوادر بندرگاہ نے مختلف سہولتوں کے تحت نئی شکل اختیار کرلی ہے۔ 

اب یہاں پورٹ روڈ، اسٹوریج یارڈ، لوڈنگ اور ان لوڈنگ کا سامان، پانی صاف کرنے، تیل کی فراہمی اور بندرگاہ کی نگرانی سمیت سہولتوں کو بہتر کردیا گیا ہے۔ پانچ نئے کنٹینر برج کرین، ایک لاکھ مربع میٹر سٹوریج یارڈ، کنٹینرا سکیننگ کا سامان، دو لاکھ گیلن ڈی سیلینیشن پلانٹس، دو سیوریج ٹریٹمنٹ سسٹم، 80ہزار مربع میٹر گرین اسپیس، نیا ایل پی جی ٹرمینل نصب کیا گیا ہے تاکہ کارگو اور مائع پیٹرولیم کو ہینڈل کیا جاسکے۔ گوادر بندرگاہ پر کنٹینر لائنر روٹ کو 2018 میں کھول دیا گیا تھا۔ مشرق وسطیٰ ایکسپریس لائن گوادر کو باقی دنیا کی اہم بندرگاہوں سے ملاتی ہے۔

 گوادر فری ٹریڈ زون 923 ایکڑ پر شمالاً جنوباً چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہاں ہوٹل، بینک، انشورنس، فنانسنگ لیز، لاجسٹکس، بیرون ملک گودام، اناج کے تیل کی پروسیسنگ، ماہی گیری، آلات اسمبلی اور 30سے زائد گھریلو اور کاروباری اداروں میں 450ملین ڈالرز سے زائدکی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ جب ان تمام اداروں کو کام میں لایا جائے گا تو ان کی سالانہ پیداوار کی مالیت 751ملین ڈالرز سے تجاوز کر جائے گی جہاں یہ پیداوار بڑھے گی وہاں لوگوں کو پانچ ہزار سے زائد ملازمتیں بھی ملیں گی۔

 گوادر فقیر پرائمری اسکول جو ستمبر 2016ء میں مکمل ہوا تھا اس میں ابتدائی طور پر 150طلبا کے اندراج کا منصوبہ تھا مگر بعد ازاں اس میں پانچ سو طلبا داخل ہوگئے۔ دراصل چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ بلوچستان کے مقامی لوگوں کی زندگی بہتر بنانے میں بھرپور کردار ادا کر رہا ہے اس میں تعلیم کے ساتھ ہنر بھی ہے اور ملازمتیں بھی مقامی لوگوں کو مل رہی ہیں۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔