بلاگ
Time 06 اگست ، 2022

القاعدہ کے امیر ایمن الظواہری کا قتل

بات شروع ہوئی تھی کہ کوئی بھی انسان ماں کے پیٹ سے دہشت گرد، ڈکیت یا قاتل پیدا نہیں ہوتا ۔یہ ماحول، حالات، ابتدائی تعلیم و تربیت، ماں باپ یا مدرس کا اثرو رسوخ یا ذہن سازی ہے جو اچھے بھلے سمجھدار اور ذہین و فطین انسان کو بھی دہشت کی اس دلدل میں دھکیل دیتی ہے۔

19جون 1951کو قاہرہ میں جنم لینے و الے شدت پسند ایمن الظواہری کی کہانی بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے جس کی فیملی ڈاکٹرز کی ایک معزز فیملی گردانی جاتی تھی ،ان کے والد نامور سرجن اور پروفیسر تھے ،اور دادا ربیعہ الظواہری جامعہ الازہر کے سب سے بڑے امام تھے ،ایک چچا عرب لیگ کے پہلے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے تھے اور پھر وہ خود بھی ایک پڑھنے لکھنے والا باصلاحیت نوجوان تھا ،جس نے 1974میں اپنی تعلیم مکمل کی اور آنکھوں کی سرجری میں گریجویشن کی اور بعدازاں آرمی سرجن کی حیثیت سے باوقار سروس جوائن کی ۔وہ اور اس کی فیملی قاہرہ کےمضافات میں اپنا ہسپتال یا کلینک بنانے کی تیاری کر رہے تھے مگر پھر ہوا کیا ؟

مودودی صاحب کہا کرتے تھے کہ جو نوجوان میری طرف رغبت کے ساتھ لپک کر آتے ہیں درحقیقت یہ ان کی مائوں کی تربیت کا اثر ہے جو ان کے اندر دین سے محبت کی تڑپ پیدا کر دیتا ہے دررویش پیشگی معافی کے ساتھ یہاں اوائل عمری کی ہڈبیتی بیان کرنا چاہتا ہے جب دینِ اسلام سے اس کی رغبت و محبت تفسیر و حدیث کے مطالعہ سے آگے بڑھتی ہوئی اسے کشاں کشاں جماعت اسلامی کے قریب لے گئی۔ مولانا مودودی اور سید قطب کی شاید ہی کوئی کتاب ہو جس کی اس نے والہانہ عقیدت کے ساتھ عرق ریزی نہ کی ہو ،اس کی تفصیل بڑی درد ناک ہے اگر وہ انہی سطروں پر آگے بڑھتا رہتا تو یقیناً بن لادن یا ڈاکٹر ایمن الظواہری کے کہیں آس پاس ہی کھڑا پایا جاتا لیکن بھلا ہواسٹڈی میں ورائٹی کا، انڈین موویز کا، قدیم یونانی اور جدید مغربی دانش بالخصوص رَسل کے لٹریچر کا، سرسید اور ڈاکٹر طہ حسین کی ماڈریٹ روشن فکر اور معرکتہ الارا تحقیقات کا اور اپنے چند اساتذہ کا جنہوں نے اس غریب کوان کے زیر اثر آنے سے بچا لیاجب کہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے ان کے زیر اثر آگئے۔

نوجوان مصری سرجن ایمن الظواہری کے قلب و نظر میں اپنے دین و ایمان سے جو پیدائشی محبت تھی، یہ دراصل ان سادہ لوح مائوں کی جیسی تیسی لوریوں میں شامل عقائد کا اثر ہے جو کانوں میںبڑی اپنائیت کے ساتھ پیہم انڈیلا جاتا ہے اور بچہ ہوش سنبھالتے ہی اسے یونیورسل ٹروتھ کی حیثیت سے اختیار کرلیتا ہے۔

اس پس منظر میں نوجوان ایمن نے اپنے پروفیشن کے ساتھ ساتھ سید قطب کی تحریکی و انقلابی کتب کا بھرپور مطالعہ جاری رکھا یہاں تک کہ حسن البنا کی اخوان المسلمون کو بچپن میں ہی باقاعدہ جوائن کرلیا ،اس کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے وہ محض پندرہ برس کی عمر میں گرفتار ہو کر جیل یاترا بھی کر آیا اور پھر اس نظریہ و اپروچ میں مزید آگے بڑھتا چلا گیا۔اخوان کے زیر اثر 1973میں مصری تنظیم الجہاد الاسلامی قائم ہو چکی تھی جس کا مدعانہ صرف یہ تھا کہ اسرائیل کے خلاف کارروائیاں کرنی ہیں بلکہ مصری صدر انور سادات کی حکومت کا تختہ بھی الٹنا ہے ۔ ڈاکٹرظواہری کا اس تنظیم سے بھی تعلق قائم ہو چکا تھا جس کا مابعد 1993ء میں ری امرج ہوا تو ایمن الظواہری نے اس کی قیادت سنبھال لی۔

جہاد اسلامی افغانستان میں عرب شمولیت سب پر واضح ہے، نوجوان سرجن نے 1980کے اوائل میں نہ صرف یہ کہ پشاور یاترا کی بلکہ یہاں افغان مہاجرین کیلئے قائم کیمپوں میں ان کے علاج معالجے میں دلچسپی لی مگر جلد واپس لوٹ گیا کیونکہ تب اس کی بنیادی دلچسپی مصری حکومت کے خلاف سرگرمیوں میں بڑھ چکی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ مصر میں سرکاری ملٹری سرجن کی حیثیت سے خالد اسلمبولی سمیت اس کے قریبی تعلقات اس پورے گروہ کےساتھ تھے جنہوں نے اکتوبر 1981میںمصری صدر انور سادات کو فوجی پریڈ کے دوران سلامی کے چبوترے پر گولیاں ماریں اور شہید کر دیا ،اس کے بعد ایمن الظواہری اپنے ساتھیوں سمیت پکڑا گیا قتل کے پورے شواہد نہ ملنے کے باوجود ناجائز اسلحہ برآمد ہونے کی وجہ سے 1984تک تین سال جیل میں رہا ۔

رہائی کے بعد اسی سال جدہ کے راستے پشاور آگیا یوں افغانستان کے اندر آمدورفت شروع ہو گئی بن لادن کے معالج کی حیثیت سے اس کے اتنا قریب ہوا کہ اس کا ڈپٹی خیال کیا جانے لگا۔ 1988میں اس کے ساتھ مل کر القاعدہ کی بنیاد رکھی یوں یہ یک جان دو قالب بن گئے اس طرح سوویت یونین کا انہدام ہوا تو یہود کے خلاف ان کی منافرت امریکہ دشمنی میں ڈھلتی چلی گئی۔

ان دنوں اس نوع کے فتاویٰ جاری ہونےلگے کہ امریکہ ہی نہیں جو اس کے معاون یا اتحادی ہیں انہیں مارنا بھی جہاد ہے۔ امریکی شہریوں کا قتل بھی اس لئے جائز ہے کہ ان کے ٹیکسز سے امریکی حکومت چلتی ہے جو اسرائیل کی مدد کرتی ہے یا عالمی کارروائیاں کرتی ہے۔ اسی سوچ کے زیر اثر سعودی عرب میں موجود امریکن فورسز کو خود کش حملوں کے ذریعے ٹارگٹ کیا جانے لگا ۔الخبر سے لیکریمن کی سرحد تک سعودی سلطنت خود کو غیر محفوظ خیال کرنے لگی، پاکستان کے اندر بھی مصری سفارتخانے کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک موقع پر مصری صدر حسنی مبارک پر بھی جان لیوا حملہ کیاگیا ایمن الظواہری اپنی جہادی سرگرمیوں میں ایک مرتبہ چیچنیا میں بھی پکڑا گیا مگر پہچانے نہ جانے پر 6ماہ بعد ہی رہا ہو کر افغانستان آگیا ۔(جاری ہے)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔