بلاگ

فارن فنڈنگ کا فیصلہ

پی ڈی ایم اور خصوصاََ مسلم لیگ ن جب پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست سے دوچار ہوئی تو مریم نواز ، مریم اورنگزیب ،احسن اقبال، سعد رفیق اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ صاحبان کو گویا کہ سانپ سونگھ گیا ،ان کا خیا ل تھا کہ پنجاب میاں صاحب کی جاگیر ہے ۔پی ٹی آئی منہ کی کھائے گی ۔

نہ عوام اس ضمنی الیکشن میں نکلیں گے نہ عمران خان کا عوام کو نکالنے کا دعویٰ درست ثابت ہو گا ۔مگر یہاں تو دونوں باتیں غلط ثابت ہوئیں اور عوام جوش و جذبےکے ساتھ وفاداریاں تبدیل کرنے والے ان ارکانِ صوبائی اسمبلی کے خلاف نکلے اور پی ٹی آئی کو کامیاب بھی کروایا۔پی ڈی ایم کے 20میں سے 15حامیوں کو بری طرح شکست سے دو چار کر دیا گیا ،پھر پنجاب اسمبلی کی گنتی میں ڈپٹی اسپیکر کی سازش بھی ناکام ہوئی اور سپریم کورٹ نے وہ گنتی بھی پوری کروادی ،اس میں دونوں چوہدریوں کی تقسیم بھی کام نہ آئی اور پنجاب میں پہلی مرتبہ چوہدری شجاعت حسین کو اس بڑھاپے میں گجرات میں مخالفانہ نعرے سننا پڑے ،وہ اندازہ ہی نہ کر سکے تھے کہ قوم کا مزاج اب تبدیل ہو چکا ہے، وہ کھرے اور کھوٹے کی تمیز کرنے لگے ہیں۔

 اس کی ایک وجہ اس وقت نوجوان ووٹر زاور خصوصاََ خواتین کا دل 37سالہ نظام سے کھٹاہوچکا ہے ۔ مولانا فضل الرحمان اور نواز شریف ان پے درپےپسپائیوں سے بری طرح تلملا کر رہ گئے ہیں کیوں کہ نواز شریف کی بیماری بھی ختم ہو چکی ہے اور حکومت نے ان کا پاسپورٹ بھی جاری کر دیا ہے، ان کے سمدھی اسحاق ڈار کی واپسی کا اعلان بھی کیا جا چکا تھا ۔ اب ان کی عمران خان کے توشہ خانہ کے حسا ب کتاب اور فارن فنڈنگ کیس سے آخری امیدیں وابستہ تھیں کیوں کہ یہ کیس الیکشن کمیشن کے اس سربراہ کے ہاتھ میں تھا ،جس کے بارے میں عمران خان اپنے خدشات کا برملا اظہار کر چکے تھے۔

علاوہ ازیں، سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کےفنڈنگ کیسوں کو اکٹھے ملا کر فیصلہ سنانے کا پابند کیا تھا۔ تاہم، عمران خان کے خدشات کے مطابق فیصلہ سنایا گیا، پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ سنا دیا گیااور چند ایسی فنڈنگز پر جن کا ذکر عمران خان نے نہیں کیا تھا ،ان کے حلف ناموں کو جھوٹا قرار دے دیا گیا ۔

اب کیا تھا چاروں طرف سے اتحادیوں کوشہ ملنے کی دیر تھی ،عمران خان کو دھوکے باز ،چور ،ڈاکواور جس کے منہ میں جو نام آیا، ان القابات سے نواز دیا گیا۔ میڈیا جو ایک دم خاموش تھا، اس کے اینکرز بھی ہڑبڑا کر عمران خان اور پی ٹی آئی کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے حالانکہ ان کو حقیقت معلوم تھی کہ سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کی پابندیاں تھیں ۔مگر سب پس پشت ڈال کر بڑی بڑی سرخیاں سجانے لگے۔ اب پی ٹی آئی کے شیخ رشیدجو کھل کر جواب دینے کے عادی ہیں، وہ برملا یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی خلاف ورزی ہو رہی ہے، اس کو رُکوانے کے لیے اسد عمر نے سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کر دی ہے ۔ تمام اتحادی مگر خوشی کے شادیانے بجانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

مریم نواز ، مریم اورنگزیب اور خصو صاً راناثنااللہ کا بس ہی نہیں چل رہا کہ وہ اس فیصلے کو میاں نواز شریف کے صادق و امین نہ رہنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے سے جوڑدیں کہ عمران خان کو بھی میاں نواز شریف کی طرح فارغ سمجھیں، پی ٹی آئی پر پابندی لگنی چاہئے اور صدر پاکستان عارف علوی صاحب استعفیٰ دے کر گھر جائیں وغیرہ وغیر ہ۔اتحادی یہ بھی بھول چکے ہیں کہ نہ پنجاب اسمبلی ان کا ساتھ دے گی نہ کے پی کے اسمبلی ان کا ساتھ دے گی۔ دونوں اسمبلیوں کے ارکان مل کر پورے پاکستان کی صوبائی اسمبلیوں کے اراکین سے دگنے ہیں ،اور محض وفاقی حکومت کی بدولت اس قدر شور و غوغامچانا شاید درست نہیں ۔

معیشت کا بیڑا غرق ہو چکا ہے ،ڈالر نا پید ہو چکا تواسٹیٹ بینک آف پاکستان اب حرکت میں آیا ہے ۔ان ذخیر ہ اندوزوں کے خلاف، پیٹرول، گیس، ڈیزل کی قیمتوں کے خلاف ٹرانسپورٹر سڑکوں پر ہرتال کر چکے ہیں ۔بجلی کے نرخوں اور اس پر ایف بی آر کے ٹیکسوں کے خلاف پورا ملک اکٹھا ہو کر بل جمع نہیں کر وا رہا ۔تمام تاجر حضرات بھی سڑکوں پر آچکے ہیں،مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بازاروں سے جان بچانےوالی ادویات ناپید ہو رہی ہیں ،فارما سیوٹیکل انڈسٹری نے سیلز ٹیکس کے خلا ف فیکٹریا ں بند کرنے کی دھمکیا ں دے رکھی ہے۔

ایف بی آر نےاگر سیلز ٹیکس واپس نہ لیا تو ادویات کی سپلائی بند ہو جائے گی ۔ملک بھر میں چوریاں ،ڈکیتیاں ،گاڑیاں اور موبائل چھیننے کے واقعات میں دوبارہ بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ سندھ اور پنجاب میں حالیہ بارشوں کے بعد سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں ،بلوچستان میں دریائی نالوں میں طغیانی کے سبب سینکڑو ں مکانات منہدم ہو چکے ہیں اور جان ومال کابے پناہ نقصان ہوا ہے۔حکومت متاثرین کو برائے نام امداد دے کر خاموش کرانا چاہ ر ہی ہے۔ گویاکسی کو عوام کی پروا ہی نہیں ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔