بلاگ
Time 11 اگست ، 2022

شکریہ ارشد ندیم۔ شکریہ نوح بٹ

یہ ڈائمنڈ جوبلی سال کے ماہِ آزادی اگست کے عظیم دن ہیں۔ کیا ہوا اگرپاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے جشن نہیں منایا جارہا ؟ اللہ تعالیٰ نے ایک پاکستانی کو یہ جشنِ الماسی طمطراق سے اس ملک میں منانے کا موقع عنایت کیا ہے، جس کے جبر اور استبداد سے ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کی تھی۔

 اس کے شہر برمنگھم میں 6فٹ دو انچ کے 25 سالہ پاکستانی نے ایک نیزہ اپنے ہدف پر پھینکا۔ ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا۔ پاکستان کا پرچم بلند ہورہا ہے۔ قومی ترانہ گونج رہا ہے۔ صرف برمنگھم میں ہی نہیں پورے پاکستان میں۔ اور دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی بستے ہیں۔ وہاں ہر چہرے پر مسرت بکھر رہی ہے۔ پیشانیاں انبساط سے تمتمارہی ہیں۔ آزادی کے75ویں سال کے آزادی کے مہینے اسی والہانہ خوشی کی تو ضرورت تھی۔

یہ خوشیاں ہمیں ایوانِ صدر سے ملنی چاہئے تھیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کو اس انبساط کا سرچشمہ ہونا چاہئے تھا۔ وفاقی وزراء، چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ ہاؤسز، کہیں بھی ڈائمنڈ جوبلی کی آتش بازی، جشن کے قمقمے دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی بیانات داغے جارہے تھے۔ برہمی تھی۔ احتجاج تھا۔ ڈائمنڈ جوبلی کی خوشی نہیں تھی۔

یہ تو عام پاکستانی ہی جانتا ہے کہ اس کے آباؤ اجداد نے آزادی کیسے حاصل کی ۔ غلامی کے راستے پر کتنا لہو بہا۔ کتنے تاریک راہوں میں مارے گئے۔ دار کی خشک ٹہنی پر وارے گئے۔ یہ بھی پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، گلگت بلتستان،آزاد جموں و کشمیر کے محنت کش، ریڑھی والے، نائب قاصد، کلرک، دکاندار، ٹیکسی ڈرائیور، رکشہ بان محسوس کرتے ہیں کہ آزادی کے ان 75سال میں ایک ایک لمحہ کس مشکل سے گزرا ہے۔ یہ اشرافیہ،یہ حکمران طبقے ان کے آبائو اجداد تو تحریکِ پاکستان میں جمہوری تحریکوں میں کہیں نظر نہیں آتے اور جو خاندان، جو نوجوان، جو بزرگ، دہلی، کراچی، حیدر آباد دکن، ڈھاکا، لکھنؤ، حیدر آباد (سندھ)، لاڑکانہ، ملتان، لاہور، راولپنڈی، مردان، کوہاٹ، قلات، کوئٹہ، نصیر آباد میں تحریک پاکستان میں سر گرم۔ لے کے رہیں گے پاکستان کے پُر جوش نعرے بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہ اب ڈائمنڈ جوبلی سال میں کہیں نمایاں نہیں ہیں۔

نوجوان جن کی آرزو تھی کہ آزادی کے75ویں سال میں ایک ہلا گلا ہوتا۔ خوشی ہوتی کہ ہم نے 75سال کی مسافت طے کرلی ہے۔ وہ واہگہ سے گوادر تک تو کہیں نظر نہیں آرہی ۔ برمنگھم میں پاکستانی اپنا ہدف حاصل کررہے ہیں۔ نوح دستگیر بٹ وکٹری اسٹینڈ پر اپنے تن و توش کے ساتھ فخر سے کھڑے ہیں۔ پاک سر زمین شاد باد کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ سبز ہلالی پرچم لہرارہا ہے۔ اسی ملک میں پاکستان کا نام بلند ہورہا ہے، جس کے اقتدار کو ہم نے للکارا تھا۔ یہ ڈائمنڈ جوبلی ہی تو منائی جارہی تھی۔ گوجرانوالہ کے اس جوان کو ہم سب کا عقیدت بھرا سلام۔اس نے ڈائمنڈ جوبلی کی لاج رکھ لی۔وہ ہمارے حکمرانوں، رہنمائوں، علمائوں، دانشوروں سے زیادہ پُر عزم نکلا۔ ہمارے کسی شاعر، کسی افسانہ نگار، کسی ناول نویس، کسی ناشر نے ڈائمنڈ جوبلی پر کوئی ایسی معرکۃ الآراء تحریر پیش نہیں کی۔ کسی کو 75ویں سال کی وقعت کا احساس ہی نہیں تھا۔ لیکن 25سالہ نوح بٹ نے جشنِ الماسی کے موقع پر اپنے پختہ ارادے کے ساتھ 405 کلو گرام وزن اٹھایا تاکہ اس کے ملک کا نام روشن ہو۔ اس کے ہم وطنوں کو ڈائمنڈ جوبلی کے دنوں میں فتح کی سرشاری نصیب ہو۔

ہمارے سیاستدان تو اپنے اس مقدس عمل سیاست کو کھیل بناچکے ہیں۔ اور غضب یہ کہ کھیل میں بھی سیاست کو داخل کرچکے ہیں۔ اس لئے جب سے یہ باری باری حکمرانی کررہے ہیں، ان ہی 30 برسوں میں 1992سے اب تک ہمارے نوجوانوں کو کسی بین الاقوامی مقابلے میں کوئی گولڈ میڈل نہیں ملا۔ اس سے پہلے1948سے ہم تیراکی، دوڑ، ریسلنگ، کشتی رانی ، باکسنگ میں میڈل حاصل کرتے رہے ہیں۔ ایک طرف1992اس لئے یادگار ہے کہ آسٹریلیا میں ہم نے اپنے سابق آقاؤں کو شکست دے کر ٹرافی اٹھائی لیکن دوسری طرف1992اس لئےایک سنگ میل ہے کہ ہم نے پھر دوسرے کھیلوں کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ ہمارے باکسر، پہلوان، نیزے باز ، ہاکی کے کھلاڑی سب نظر انداز ہوتے رہے۔ ایسوسی ایشنیں تھیں۔ بجٹ بھی تھا۔ کروڑوں روپے صَرف ہورہے تھے۔ لیکن وکٹری اسٹینڈ پر کوئی پاکستانی شہسوار نہیں ہوتا تھا۔

ارشد ندیم قدم بڑھارہا ہے۔ نیزہ اسی ہاتھ میں ہے، جس کی کہنی پر پٹی بندھی ہے۔ اس کی تمتماتی پیشانی پر مجھے 75سال کی جدو جہد، جمہوری تحریکیں، بزرگوں کی آرزوئیں نظر آرہی ہیں۔ پہلے اس کی مسافت۔ پھر اس کے نیزے کا 90.18 میٹر کا سفر۔ پھر اس کے بلند ہوتے دونوں ہاتھ، اس کا کھلتا منہ۔ تکمیل کی بشارت ۔ ہدف کے حصول پر تسکین۔ پھر کارساز۔ قادر و عادل کے حضور۔ بے ساختہ سجدۂ شکر۔ میاں چنوں نے پاکستان کا سر فخر سے بلند کردیا ہے۔ خانیوال کے آرائیں نے 22کروڑ پاکستانیوں کو ایک لازوال خوشی سے ہمکنار کردیا ہے۔ میاں چنوں کا یہ فاتح ماریشس، ویت نام، آذر بائیجان، آسٹریلیا، قطر اور جانے کہاں کہاں سے ہوتا ہوا اس منزل تک پہنچا ہے۔ پانچ بھائیوں میں تیسرا۔ اس کے عظیم والد محمد اشرف کو سلام ۔ متوسط طبقے کے اس پاکستانی نے بیٹے کو ایک منزل کا احساس دیا۔ پھر استقامت کا درس بھی دیا۔ اب ساری امیدیں اسی متوسط طبقے سے ہیں جو اپنی اولادوں کو اپنا پیٹ کاٹ کر اچھی تعلیم دلوارہے ہیں۔ واضح ہدف دے رہے ہیں۔

ڈائمنڈ جوبلی کے لمحات تصدیق کررہے ہیں کہ افراد کامیاب ہورہے ہیں۔ ادارے ناکام ۔ وہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن ادا نہیں کرپارہے۔ مصلحتیں آڑے آجاتی ہیں۔ اس لئے پاکستان 75 سال بعد بھی وہاں نہیں جہاں ہونا چاہئے۔ 30 سال سے بالخصوص ایسا ہورہا ہے۔ یہ 30سال کس کے ہیں۔ ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں کون براجمان رہا ہے۔ منتخب سیاسی حکومتیں بھی رہی ہیں۔ فوجی سرکار بھی۔ اقتدار میں شراکت بھی رہی ہے۔ اس تجربے نے پاکستان کا کیا حال کردیا ہے۔ معیشت کو کہاں پہنچادیا ہے۔ روپے کو کتنا کمزور کردیا ہے۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ کتنا بڑھ گیا ہے؟ یہ بھی غور طلب ہے کہ دونوں گولڈ میڈلسٹ ان بنجر 30 برسوں کی پیدائش ہیں۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر۔ افراد قوم کو خوشیاں دے سکتے ہیں۔ صرف کھیل میں ہی نہیں۔ دوسرے شعبوں میں بھی۔ جدید علوم، ٹیکنالوجی، انتظامیہ ،معیشت میں بھی افراد کارہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ مگر میڈیا ان کی خبریں نہیں دیتا۔

شکریہ ارشد ندیم۔ شکریہ نوح بٹ۔

آپ نے انگریز کی بادشاہی میں آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی مناکر 22کروڑ کے دلوں کو ایک ولولۂ تازہ دے دیا ہے۔ اپنے حصّے کی شمع جلادی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔