بلاگ
Time 16 اگست ، 2022

کہاں عمران خان، کہاں جگتو فرنٹ

پہلے آپ کو جگتو فرنٹ کے متعلق بتا دوں کہ جگتو فرنٹ کیا تھا ؟پچاس کی دہائی میں چار جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد بنا یہ چاروں جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف تھیں ان کے لیڈر ایک دوسرے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے تھے مگر یہ سب جگتو فرنٹ میں اکٹھے ہو گئے۔

یہی حال پی ڈی ایم کا ہے پی ڈی ایم آج کا جگتو فرنٹ ہے آج کا یہ جگتو فرنٹ عمران خان سے مقابلہ کر رہا ہے مگر اکلوتے عمران خان نے اسے چاروں شانے چت کر رکھا ہے۔ پی ڈی ایم کی پندرہ جماعتیں اکلوتی تحریک انصاف سے خوفزدہ ہیں ۔ عمران خان جتنے بڑے جلسے کر رہے ہیں پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں سرکاری وسائل استعمال کرکے جب بھی جلسہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ جلسی ہی ہوتی ہے ۔

 ایک مکارانہ چال کے تحت قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے صرف گیارہ استعفے قبول کئے گئے حالانکہ پوری پی ٹی آئی مستعفی ہو چکی ہے ۔ اب جب قومی اسمبلی کے نو حلقوں پر الیکشن کا مرحلہ آیا تو عمران خان نے فیصلہ کیا کہ وہ نوحلقوں سے خود الیکشن لڑیں گے، چال چلنے والوں کو عمران خان کی اس انوکھی چال نے مزید پریشان کردیا، اب پی ڈی ایم یعنی جگتو فرنٹ کا امتحان تھا کہ وہ کیا کرے ؟ کسی نے مشورہ دیا کہ خیبر پختونخوا کی نشستوں پر مولانا فضل الرحمن الیکشن لڑیں، سندھ سے آصف علی زرداری شوق پورا کر لیں اور پنجاب سے شہباز شریف خود میدان میں اتریں یا اپنے صاحبزادے کو الیکشن لڑوائیں۔

اس مشورے کے بعد مولانا صاحب ترکی چلے گئے ،آصف علی زرداری نے دبئی میں ڈیرے لگا لئے اور حمزہ شہباز لندن سدھار گئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مبینہ طور پر ایک سرکاری خفیہ ادارے کی رپورٹ شہباز شریف کی میز پر ہے اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ جو نشستیں خیبر پختونخوا میں ہیں وہاں سے عمران خان بیس پچیس ہزار کی لیڈ سے جیتے گا ، پنجاب میں یہ مارجن دس سے پندرہ ہزار کی لیڈ ہو گا اور سندھ سے بھی عمران خان کی جیت آٹھ سے دس ہزار کی لیڈ سے ہو گی ،اس رپورٹ نے پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جب سے بقول تحریک انصاف یہ امپورٹڈ حکومت آئی ہے ہر طرف پریشانیاں ہی پریشانیاں بکھری ہوئی ہیں اب جو حکومت خود پریشان ہو وہ لوگوں کے لئے آسانیاں کہاں سے تلاش کرے پھر جس حکومت کا مشن صرف مقدمات کا خاتمہ ہو اسے لوگوں کے مسائل سے کیا بلکہ اسے لوگوں سے کیا؟

صاحبو! میں نے پچھلے پچیس تیس برسوں میں حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھا ،اقتدار کے ایوانوں کو پرکھنے کا موقع ملا اس تجربے کی بنیاد پر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہمارے حکمران صرف اپنی بات کرتے ہیں انہیں لوگوں سے کوئی غرض نہیں، یہ ہر وقت اپنا مفاد سامنے رکھتے ہیں، اکثر تو ایسے تھے جو اپنے سوٹ اور ٹائیاں ڈسکس کرتے تھے کچھ ایسے تھے کہ وہ گاڑیاں زیر بحث لاتے تھے کچھ قرضوں کی معافی کے طریقے ڈھونڈتے تھے اور بعض نئی فیکٹریاں لگانے کی باتیں کرتے تھے اور کچھ تو اتنے چالاک تھے کہ وہ اپنے ہی ملک کا پیسہ دوسرے ملکوں میں بھجواتے تھے یہ لمحہ میرے لئے اور بھی تکلیف دہ تھا کہ یہ کیسے پاکستانی لیڈر ہیں جو اپنی دھرتی کا سرمایہ بیرونی دنیا کے حوالے کر رہے ہیں مگر عمران خان ان سب سے مختلف تھا۔

بطور وزیر اعظم ان سے میری آخری ملاقات اقتدار کے خاتمے سے چند روز پہلے ہوئی وہ پاکستان کے لئے بہت پریشان تھے اس ملاقات کا پورا احوال لکھ دیتا ہوں ۔یہ صبح ساڑھے دس گیارہ بجے کا وقت تھا وزیر اعظم کے ہنس مکھ اور خوبصورت ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر احمد نے مجھے خوش آمدید کہا کچھ دیر میں قہوہ اور کھجوریں آ گئیں مجھے بتایا گیا کہ یہ محمد بن سلمان کی طرف سے خاص تحفہ ہے آپ نوش فرمائیں۔ خیر بات شروع ہوئی تو عمران خان کہنے لگے ’’میں اپنے لوگوں کے لئے دو حوالوں سے پریشان ہوں ، نمبر ایک میری خواہش ہے کہ لوگوں کو سستا پٹرول فراہم کیا جائے، نمبر دو ہم پام آئل ملائیشیا سے درآمد کرتے ہیں یہ آئل ہمارے ہاں کوکنگ آئل یا گھی بنانے والی فیکٹریاں استعمال کرتی ہیں، یہ فیکٹریاں کوکنگ آئل اور گھی لوگوں کو مہنگے داموں دے رہی ہیں لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں پام آئل مجبوراً درآمد کرنا پڑتا ہے اس کا کیا حل کیا جائے ؟‘‘

دو پریشانیاں سننے کے بعد میں نے پٹرولیم کے لئے ایک حل بتایا تو انہوں نے اگلی بات سننے سے پہلے ہی فون پکڑا اور کہا کہ ’’شوکت ترین سے بات کرائو‘‘ انہوں نے وہ حل وزیر خزانہ کے گوش گزار کیا میں نے ان سے کہا کہ دوسرے مسئلے کا حل تھوڑا مختلف ہے ہمیں فوری طور پر پام آئل پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کر دینی چاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی ساڑھے گیارہ سو کلو میٹر لمبی ساحلی پٹی پر پام کے درخت لگوانے چاہئیں تاکہ کچھ عرصے بعد پاکستان پام آئل میں خود کفیل ہوجائے، ہم پام آئل برآمد کرنے کے قابل ہو جائیں جب تک یہ درخت جوان ہوں گے اس دوران ہمیں دیسی گھی کی پیداوار بڑھانے کے لئے ڈیری ڈویلپمنٹ پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں کاشت کاروں سے کہنا ہوگا کہ وہ سرسوں کی کاشت زیادہ کریں تاکہ لوگ سرسوں کا تیل کوکنگ آئل کے طور پر استعمال کریں ۔

یہ واقعہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ مجھے واحد عمران خان ایسا حکمران نظر آیا جو عوام کے لئے پریشان تھا، اسے اقتدار سے الگ کرنے والی پی ڈی ایم سمجھتی تھی کہ وہ ختم ہو جائے گا مگر انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ کورونا کے موسم میں اپنے غریب عوام کو بارہ ہزار ان کی دہلیز پر پہنچانے والا پاکستان کے غریبوں کے دلوں میں گھر کر چکا ہے ، انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ لوگوں کو صحت کارڈ مہیا کرنے والا لوگوں کے دلوں میں بس چکا ہے، اسے اقتدار سے الگ کیا گیا تو لوگ مٹھائی بانٹنا بھول گئے بلکہ لوگ احتجاجاً کھڑے ہو گئے۔

اس نے جلسوں کا آغاز کیا تو لوگ جوق در جوق اس کے جلسوں میں آنا شروع ہوگئے اب وہ مقبول ترین لیڈر ہے بلکہ بقول چوہدری پرویز الٰہی، ’’عمران خان صرف پاکستان ہی کا نہیں امت مسلمہ کا مقبول ترین لیڈر ہے ‘‘ سو دوستو ! کہاں عمران خان اور کہاں یہ جگتو فرنٹ، پورے ملک کا ہر شہر ہر گائوں عمران خان کی آواز بن چکا ہے جبکہ مخالفین کی آوازیں اپنے گھروں میں بھی محدود ہو چکی ہیں۔بقول نوشی گیلانی

اس شہر میں کتنے چہرے تھے کچھ یاد نہیں سب بھول گئے

اک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہوا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔