مسلم لیگ (ن) کے کھرے کھوٹے!

میرا ایک دوست 32 سال سے ’’پٹواری‘‘ ہے، میاں نواز شریف کو مرشد اور میاں شہباز شریف کو زبردست منتظم مانتا ہے، بلکہ شہباز صاحب سے اس کی دوستی بھی بہت تھی، دونوں جب اکیلے ملتے تو گپ شپ کے دوران ایک دوسرے کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنستے بھی تھے۔

چند روز قبل ملے تو میں نے انہیں بہت مایوس پایا، وجہ پوچھی تو کہنے لگےکہ میں نے ہردور میں پی ایم ایل این کی سپورٹ کی وجہ سے گالیاں بھی سنیں اور بہت سزائیں بھی بھگتیں، لیکن اب جب سے مسلم لیگ دوبارہ اقتدار میں آئی ہے میاں نواز شریف سے ملنے کو بہت جی چاہتا ہے مگر مجھ ’’پٹواری‘‘کے پاس لندن کا کرایہ نہیں ہےالبتہ انہیں دیکھنے اور ان سے باتیں کرنے کو ترستا ہوں، مگر ان کی پاکستانی قیادت مجھے پہچانتی ہی نہیں، جو لوگ اقتدار سے محرومی کے دوران مجھے ’’استادِ محترم‘‘ کہتے تھے وہ میرا فون بھی نہیں سنتے۔ میرے پاس روزانہ کئی لوگ جو عمرانی دور میں سخت دن گزار چکے تھے۔

وہ اپنے کئی چھوٹے موٹے سو فیصد جائز کام کروانے کے لئے آتے ہیں مگر میں بوجہ شرمندگی انہیں اصلی بات بتانے کی بجائے کوئی کمزور سا بہانہ بنا کر ان سے معذرت کرلیتا ہوں، اس حکومت کے قیام میں آنے کے بعد ایک دو افراد کے درمیان میری ملاقات بھی شہباز شریف صاحب سے ہوئی اور تقریب کے اختتام پر میں اٹھ کر وہاں سے چلا آیا، انہوں نے مجھ سے نہ ملنے کی شکایت کی اور نہ میں نے ان سے کوئی گلہ کیا اور ہاں مجھ پر جو مقدمے قائم ہوئے تھے وہ ابھی تک قائم ہیں، ممکن ہے میرے دوست کچھ عرصے بعد تم سے ملاقات بھی نہ ہو سکے۔

میں اس دوست کی یہ باتیں سن کر بہت حیران ہوا بلکہ پریشان ہوا کیونکہ میرے ساتھ تو ان کے روابط ویسے ہی ہیں،شہباز صاحب لاہور آتے ہیں تو ہمیشہ کی طرح فون کرتے ہیں، کھانے پر بلاتے ہیں، ان کے وزراء بھی ابھی تک میرے ساتھ ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی وہ اپوزیشن کے دوران کیا کرتے تھے۔ کل خواجہ سعد رفیق سے ملاقات ہوئی جو ایم اے او کالج میں میری پروفیسری کے دوران وہاں طالب علم تھے۔ وہ اس وقت بھی بہت بہادر تھے، آج بھی بہت بہادر ہیں، پہلے بھی دل کی بات اپنی قیادت کے ساتھ کھل کر کرتے تھے آج بھی کرتے ہیں۔ آخر خواجہ رفیق شہید کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی جب ملنےپر انہوں نے مجھ سے اتنی ’’گھٹ‘‘ کے ’’جپھی‘‘ ڈالی کہ میں نے ہنستے ہوئے انہیں خود سے جدا کیا ۔

خواجہ آصف پڑھے لکھے آدمی ہیں مجھے حیرت ہوئی کہ انہیں اردو ادب سے گہرا شغف ہے ۔ایک باردبئی میں ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بڑی دیر تک فراز کی شاعری اور زندگی پر گفتگو کی۔ اسی طرح میرا شیر دل دوست رانا ثنااللہ جس نے بے گناہی کی سزا عمرانی دور میں بھگتی اور آج بھی وہ ’’پٹواریوں‘‘ میں ہر دلعزیز اور یوتھی انہیں بدرنگی گالیاں دیتے ہیں، رانا صاحب ہر اچھے برے وقت میں مجھ سے بہت محبت سے ملے، وہ میرے بیٹے کی شادی میں بھی آئے تھے اور بارات کی رخصتی کے بعد بھی ہم کافی دیر تک ایک دوسرے سے گپ شپ کرتے رہے۔

وہ مجھے پہلے ہی پسندتھےاور آج بھی ہیں، ’’کچھ شرم کرو ، کچھ حیا کرو‘‘ والی بات انہوں نے یوتھیوں سے کچھ اس اندازمیں کہی تھی کہ خود یوتھیے بھی اس کامزا لیتے ہیں بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ انہیں اردو ادب سے بھی بہت لگائو ہے۔باقی رہے خرم دستگیر تو وہ ایک لحاظ سے میرے ’’گرائیں ‘‘ ہیں، ان کا تعلق گوجرانوالہ اور میرا وزیر آباد سے ہے تاہم ان سے کافی عرصے سے ملاقات کی کوئی سبیل نہیں نکلی ان کے علاوہ بھی بہت سےوزیر میرے دوست تھے اور ہیں مگر ہم کچھ زیادہ ہی مصروف رہنے لگے ہیں۔ ایک شخص ہے جس کا نام پرویز رشید ہے کیا کمال کا آدمی ہے، سزائیں تو میرے تقریباً ان سب دوستوں نےعمرانی دور میں کم یا زیادہ سہی ہوں گی مگر جو کچھ پرویز رشید کے ساتھ ظلم وستم ہوئے وہ خدا کسی دشمن کے نصیب میں بھی نہ کرے ۔

اس وقت پارٹی نےانہیں کوئی ذمہ داری نہیں دی، یقیناً ان سے کوئی غلطی ہوئی ہوگی جس کی سزا کے باعث اب تک معافی نہیں ملی مگر وہ آج بھی دل وجان سے مسلم لیگ (ن) کے یک طرفہ دست وبازو ہیں، ان سے مہینے میں ایک آدھ بار ضرور ملاقات ہوتی ہے اور پھر اس کی خوشی برسوں تک دل میں رہتی ہے۔

جب میں نے یہ سب باتیں اپنے دوست کو بتائیں جس کا کہنا ہے کہ پارٹی ان کو بھول ہی نہیں چکی بلکہ پارٹی اچھی طرح جانتی ہے کہ ایسے احمقوں کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے ،میں اپنے دوست کو بہت دیر تک سمجھاتا رہا ،جب میری تقریر کچھ زیادہ طویل ہوئی تو بولا ’’یار میرے حوالے سے تمہاری دلچسپی کا بہت شکریہ مگر میں نے تمہیں جو کچھ بتایا ہے وہ اگرچہ بالکل صحیح ہے مگر میں نواز شریف کا عاشق تھا اب بھی ہوں اور آئندہ بھی رہوں گا ۔پارٹی کے قائد صرف اور صرف نواز شریف ہیں باقی کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مصلحت کے سبب ان کے ساتھ ہوں گے مگر نواز شریف صاحب کو چاہئے کہ کبھی یہ لوگ انہیں دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جائیں یا انہیں غیر فعال کرنے کی سازش جاری رکھیں، ان کی چھانٹی ابھی سے کر دیں‘‘ ۔ میں دوست کی یہ باتیں سن کر چپ رہا کیونکہ میں اس کی تردید کرکے اسے مزید مغموم نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں، پارٹی ٹھیک چل رہی ہے، الیکشن قریب ہیں، اس وقت کھوٹے اور کھرے کا خودبخود پتہ چل جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔