18 اگست ، 2022
چند دن قبل یومِ آزادی کے موقع پر اگر ایک طرف وفاقی حکومت کی طرف سے منعقد کی گئی سرکاری تقریب میں روشن خیالی کا مظاہرہ کرتے ہوے قوم کی بیٹیوں ،بیٹوں سے بھارتی فلموں کی طرز پر ڈانس کروایا گیا۔
جسے وزیر اعظم اور اُن کی کابینہ سمیت کئی ارکانِ پارلیمان اور دوسرے وی وی آئی پیز نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ دیکھا اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس کا کھلا مذاق اڑایا تو دوسری طرف اسلام آباد کے سیاحتی مقام شکر پڑیاں میں چند غیر ملکی خواتین کے ساتھ کچھ اوباش نوجوانوں کی طرف سے بدتمیزی کی گئی، اُنہیں ہراساں کیا گیا جس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا کہ بحیثیت قوم ہم اخلاقی طور پر ایسی تنزلی کا شکار ہیں کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ہماری جو حالت ہو چکی ہے اُسے دیکھ کر سمجھ نہیں آتا کہ ہم ہر سال یومِ آزادی پر جشن کس بات کا مناتے ہیں؟ آزادی ایک بڑی نعمت ہے جو ہم نے حاصل کر لی لیکن آزادی کے بعد ہم نے اپنے ملک کے ساتھ کیا کیا؟ اپنے معاشرے کی کیا حالت کر دی ؟یہ سب دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آزادی حاصل کر کے بھی ہم معاشی وجوہات کی بنا پر غیر ملکی قوتوں کے غلام ہیں۔ آزادی اس لئے حاصل کی تھی کہ ہم ایک مثالی قوم بنیں گے، پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن یہاں بھی ہم اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے غافل رہے اور اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو گویا جانوروں اور درندوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ کون سی خرابی ایسی ہے جو ہم میں موجود نہیں ؟ جو معاشرتی اور اخلاقی بنیادیں ہمارے معاشرے کا فخر تھیں اُنہیں ایک ایک کر کے پہلے کھوکھلا اور پھر تباہ کیا جا رہا ہے اور حکومت محض تماشائی بنی ہوئی ہے۔ سچ پوچھیں تو حکومت اس تباہی میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے اور جو کچھ اس سال یوم آزادی کے موقع پر حکومت نے کیا وہ پوری قوم کے لئے شرمندگی کا باعث تھا۔
حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی کا ایسا نظام وضع کرے کہ ہمارا معاشرہ ہماری دینی و معاشرتی اقدار کے مطابق پروان چڑھے اور اخلاقی و معاشرتی خرابیوں کی حوصلہ شکنی ہو لیکن افسوس کہ کردار سازی اور تربیت پر تو کوئی توجہ نہیں لیکن اپنے آپ کو ماڈرن، روشن خیال اور لبرل ثابت کرنے کے لئے بالی ووڈ کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے معاشرےمیںفحاشی و عریانی عام ہو رہی ہے۔ ایک طرف نوجوان فحاشی و عریانی کو ترقی سمجھ کر اُس سے مرعوب ہو رہے ہیں تو دوسری طرف اُن کی کردار سازی اور اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ جانور بنتے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ایسے ایسے واقعات آئے دن وقوع پذیر ہورہے ہیں کہ انسانیت سر پیٹ کر رہ جاتی ہے ۔
اوپر سے ایسے جرائم میں ملوث افراد کو نشانِ عبرت بنانے کی بجائے اُن کا دفاع انسانی حقوق کے نام پریہ کہہ کر کیا جا تا ہے کہ سخت سزائیں نہ دی جائیں۔ گویا معاشرے میں خرابیاں بڑھتی جا رہی ہیں لیکن اُن کے سدِباب کے لئے کوئی سوچ نہیں، کوئی فکر نہیں! عمران خان سے ہزار اختلاف اور مجھے اس بات کا افسوس بھی ہے کہ اُنہوں نے چند روز قبل مجھ پر جیو سمیت ایک سازش کا حصہ ہونے کا جھوٹا الزام لگایا لیکن یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ وہ کم از کم اپنی حکومت میں فحاشی و عریانی کے خلاف اکثر بات کیاکرتے تھے اور یہ بھی کہ اُنہوں نے ایک ادارہ بھی بنایاجس کا نام ’’رحمت اللعالمین اتھارٹی‘‘رکھا گیا تاکہ نوجوانوں اور معاشرےکی اسلامی تعلیمات کے مطابق تربیت اور کردار سازی کی جائے۔
موجودہ حکومت نے اس اتھارٹی کا قانون تو بنا دیا لیکن ابھی تک اس ادارے کو فعال کرنےکے لئے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ ن لیگ میری نظر میں ایک لبرل سیاسی جماعت بن چکی ہے ، موجودہ لیگی رہنما تو گویا پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس کو بھی بھلا چکے اور اسی لئے ان کے لئے اب قوم کی جوان بیٹیوں ،بیٹوں کا مخلوط ڈانس کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا ۔ تاہم اس کے باوجود میں وزیر اعظم شہباز شریف اور حکومت کے دوسرے ذمہ داروں سے گزارش کروں گا کہ قوم کی اخلاقی اقدار اور کردار کو تباہی سے روکنے کے لئے عمران خان حکومت میں قائم کی جانے والی اتھارٹی کو فعال کیا جائے اور جنگی بنیادوں پر معاشرےکی کردار سازی اور اخلاقی تربیت کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کئے جائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔