مفتاح اسماعیل کا ـ’’کِلہ‘‘ مضبوط ہے

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے راولپنڈی اور لندن گروپ کی طرف سے جس طرح کامتضاد مؤقف اپنایا گیا، اس سے ایک بار پھر اپنی کم مائیگی اور کم علمی کا اِدراک ہوا۔ میں نے سوچا کیوں نہ معروف شخصیات کے اقوال کی روشنی میں سیاست کے اس انداز کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ 

جرمن چانسلر بسمارک کا خیال ہے کہ سیاست ممکنات کا کھیل ہے مگر سرونسٹن چرچل سیاست کو سرے سے کھیل ہی تصور نہیں کرتے،  ان کے مطابق سیاست کھیل نہیں سنجیدہ نوعیت کا کاروبار ہے۔

 امریکی مصنفہ، نکولی ویلیس کہتی ہیں، سیاست کی مثال ایکسرے مشین کی سی ہے جس میں ہر چیز آشکار ہو جاتی ہے،  ایک اور امریکی مصنفہ ایما گولڈ مین کی رائے یہ ہے کہ ووٹنگ سے اگر تبدیلی لائی جا سکتی تو اسے بھی غیر قانونی قرار دے دیاگیا ہوتا۔

 امریکی ارب پتی اور سابق صدارتی امیدوار روز پیرٹ نے بہت کمال بات کہی۔ اگرچہ ان کی یہ رائے امریکی سیاست کے بارے میں ہے مگر اس کا اطلاق پاکستانی سیاست پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، جنگ کے قاعدے ہوتے ہیں ،یہاں تک کہ شکاگو میں کھیلی جانے والی ریسلنگ کا بھی کوئی ضابطہ ہوتا ہے مگر سیاست میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔ نکولو میکاولی سے پوچھیں تو سیاست کا اخلاقیات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

 جرمن جرنیل کارل ون کلازوٹز کا خیال ہے کہ سیاست کی کوکھ میں جنگ پرورش پاتی ہے۔ ماؤزے تنگ فرماتے ہیں، سیاست جنگ کا ہی دوسرا نام ہے البتہ اس میں لوگ نہیں مارے جاتے جب کہ جنگ سیاست کا ہی پرتو ہے جس میں قتل و غارت گری ہوتی ہے۔ سرونسٹن چرچل کے مطابق سیاست کا عمل بھی جنگ کی طرح ولولہ انگیز اور خطرناک ہے، جنگ میں تو آپ ایک بار رزقِ خاک ہو جاتے ہیں مگر سیاست میں کئی بار مرنا پڑتا ہے۔

 سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کہتے ہیںکہ سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طورپر نہیں ہوتا، کوئی حادثہ اگر ہو بھی جائے تو آپ شرطیہ طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ نپولین بونا پارٹ ڈھٹائی کو سیاست کا اہم ترین ہتھیار قرار دیتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ سیاست میں کبھی پیچھے نہ ہٹو، کبھی پسپائی اختیار نہ کرو، کبھی غلطی تسلیم نہ کرو۔ فرانسیسی جرنیل، Charles de Gaulleکہتے ہیں، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ سیاست اس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ اسے محض سیاستدانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسی جرنیل کا ایک اور قول ہے کہ سیاستدان مخدوم (مالک) بننے کے لئےخود کو خادم (نوکر) کے طور پر پیش کرتا ہے۔ 

آپ نے سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا وہ قول تو سنا ہوگا کہ کچھ لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے، سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے بیوقوف بنایا جا سکتا ہے مگر سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئےبیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر امریکی مصنف اور کالم نگار فرینکلن پی ایڈمز اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں، اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایسے سیاستدانوں کی بہتات ہے جنہیں اپنے تجربے کی بنیاد پر ایمان کی حد تک یقین ہے کہ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لئےبے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔ ان کے اس جملے کا اطلاق کن سیاستدانوں پر ہوتا ہے، یہ فیصلہ قارئین خود کرلیں۔

روسی سیاسی مدبر نکیتا خورشیو جنہوں نے سرد جنگ کے دوران اپنے ملک کی قیادت کی، نے مایوسی اور نااُمیدی کے کسی لمحے میں یہ حقیقت طشت ازبام کی تھی کہ دنیا بھر کے سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں، یہ وہاں بھی پُل بنانے کا وعدہ کر لیتے ہیں جہاں دریا ہی نہیں ہوتا۔ نائیجیریا کے شاعر اور ناول نگار بن اوکری اکابرین سیاست کی مجبوریوں کا اِدراک کرتے ہوئے کہتے ہیں، سیاست گر اور جادوگر میں کئی قدریں مشترک ہوتی ہیں مثلاً دونوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں اس پر لوگوں کی توجہ مرکوز نہ ہو۔

لیکن میں دنیا بھر کی دانش مستعار لینے کے بعد بھی شریف خاندان کی حالیہ سیاست سمجھ نہیں پایا ۔بس اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ یہ سیاست گر نہیں بلکہ جادوگر ہیں ۔ان کے پاس تین ہیٹ بھلے نہ ہوں مگر دو چہرے ضرور ہیں۔ عوامی چہرہ بہت بھلے مانس اور لوگوں کی تکلیف محسوس کرنے والا ہے جب کہ دوسرا چہرہ بہت کرخت اور بے رحم ہے۔سوال یہ ہے کہ دو چہروں کی جادوگری جو ان کے ہاں برسہا برس سے مستعمل رہی ہے، یہ کسی سیاسی حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے یا پھر حالات وواقعات نے اس طرف دھکیل دیا ہے؟دستیاب معلومات کے مطابق یہ ’’نورا کشتی‘‘ نہیں۔

 میاں شہباز شریف اور مفتاح اسماعیل دونوں کو یہ بات بہت اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کا اقتدار کس کے مرہونِ منت ہے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ وہ آسان ہدف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا ’’کِلہ‘‘بہت مضبوط ہے۔ میاں نوازشریف چاہتے تھے کہ اسحاق ڈار پاکستان آکر وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالیں اور اگلے مرحلے میں وہ بھی واپس لوٹ آئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جولائی کے آخری ہفتے میں اسحاق ڈار کے وطن واپس آنے کی تصدیق کی گئی مگر ایسی صورت میں معاشی محاذ پر جو بہتری آتی اس کا کریڈٹ مسلم لیگ(ن) کو جاتا ۔

چنانچہ وہ باغباں جو برق وشرر سے ملے ہوئے ہیں، انہوں نے یہ طے کیا کہ وزارت خزانہ کا قلمدان مفتاح اسماعیل کے پاس ہی رہے گا۔ ایک اور پیشرفت یہ ہوئی کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی مسلم لیگ راولپنڈی گروپ کے ہمنوا بن گئے۔ میاں نوازشریف اور مریم نواز پارٹی کا عوامی چہرہ ہیں، انہیں انتخابی مہم چلانی ہے،9حلقوں میں ضمنی الیکشن سر پر کھڑے ہیں مگر حکومت اس طرح کے اقدامات سے سیاسی مخالفین کا کام آسان بنا رہی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔