بلاگ
Time 25 اگست ، 2022

سابق کھلاڑی کی ذہنی پریشانی؟

ایک مہربان نے پوچھا ہے کہ’’ آپ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف رہے ہیں اور اس کی مخالفت میں کھڑے ہونے والے سیاسی لوگوں کی حمایت میں لکھتے بولتے چلے آ رہے ہیں ۔آج جب پی ٹی آئی کا چیئرمین اسٹیبلشمنٹ کے چھکے چھڑا رہا ہے تو آپ اس کی حمایت میں کیوں نہیں لکھ رہے ؟

دوسری بات یہ کہ آپ مذہبی بنیاد پرستی اور تنگ نظری کے بالمقابل ہمیشہ سے ماڈریٹ لبرل اپروچ کے علمبرداررہے ہیں، آج اس پاپولر شخص نے اپنی پاپولیریٹی کی پروا نہ کرتے ہوئے اگر قاتلانہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے تب بھی آپ کا ضمیر نہیں جاگا کہ آپ اس کی مخالفت ترک کرکے کم از کم کسی ایک ایشو پر اس کی حمایت میں چار لفظ لکھ دیتے ؟‘‘

اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ کسی بھی صحافی یا لکھاری کو بہرصورت غیر جانبدار ہونا چاہئے کسی کی حمایت یا مخالفت کا معیار ہمیشہ انسانی مفاد اور حقوقِ انسانی کی مطابقت میں رہنا چاہئے اس کے ساتھ ساتھ اس کی نظر محض وقتی و ہنگامی بیانات تک نہیں بلکہ اس کے پس منظر، سیاق وسباق اور شانِ نزول کی اصلیت تک ہونی چاہئے جو لوگ ان حقائق کا ادراک نہیں رکھتے، محض لچھے دار تقاریر یاپروپیگنڈے کی بھرمار سے مار کھا جاتے ہیں بھلا ’’ اس شُعلۂ نم خوردہ سے ٹُوٹے گا شرَر کیا!‘‘کہ ہمارے اوپر پیچھے سے پریشر تھا ،نیوٹرلز کا پریشر کہ ان کو پھینٹا لگائو۔

’’چیف الیکشن کمشنر ہر فیصلہ ہمارے خلاف دے رہا ہے ،مجھے نااہل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر اندر سے پیغام آ رہا ہے کہ وہ کچھ نہیں کر رہا پیچھے سے پریشر ہے۔ ‘‘ شہباز گل کے معاملے پر پولیس سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمیں تو کچھ نہیں پتہ یہ سب پیچھے سے ہو رہا ہے ۔’’میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نیوٹرل ہیں یا نہیں ہیں ؟ اگر نیوٹرل نہیں ہیں تو کیوں اس ملک کو اتنا نقصان پہنچا رہے ہیں ؟

اگر آپ نے ان لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا ہے جن کو قوم تیس سال سے چور سمجھ رہی ہے تو کیا قوم اس لئے ان کا ساتھ دے کہ آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ؟’’اس ملک میں جو بھی غلط کام ہو رہا ہے آپ کے نام سے ہو رہا ہے مجھے پتہ ہے کیا پلان بنا ہوا ہے مسٹر وائی کیا پلان لے کر آیا ہے ؟ مجھے جیل میں ڈالنے کا،مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا میں قوم کو اکٹھا کروں گا اور ملک کا حال سری لنکا والا ہو جائے گا۔ ‘‘

اس تمام تر پروپیگنڈے اور طعنہ زنی کا منبع یہ ذہنی خلجان ہے کہ میں تو اچھائی کا پتلا اور نجات دہندہ ہوں جب کہ دوسرے سب چور ڈاکو ہیں حالانکہ ساڑھے تین سالہ کارکردگی کے بعد یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہئے تھی کہ میں دوسروں سے بہتر ہوں۔

 اس ملک کی جو بربادی یا آباد کاری دوسرے تیس سال میں نہ کر پائے ، آپ نے محض تین سال میں کر دکھائی، آپ پیہم یہ دعویٰ کرتے تھے کہ کون کتنا چور اور بے ایمان ہے، طاقتوروں کو ان سب کا پتہ ہوتا ہے، ا سی لئے ایجنسیوں کا یہ استحقاق ہے کہ وہ منتخب حکمرانوں کے فون ٹیپ کریں، دوسروں پر لٹھ پڑے تو آپ کے نزدیک وہ اس کے مستحق ہیں اور خود آپ پر لٹھ برسے تو آپ مظلوم! کیا اس کا نام انسانی تحریک ہے ؟

آج آپ فرماتے ہیں کہ میں تو بے اختیار محض کٹھ پتلی تھا اختیار و اقتدار تو کسی اور کے پاس تھا جو دوسروں پر دست شفقت رکھتا تھا توپھر اس کے باوجود دوسروں کو تیس سالہ حکمرانی کے طعنے کس بنیاد پر دیتے ہیں؟کیا دوسرے جن کو آپ کمزور کہتے ہیں آپ سے زیادہ بے بس نہ تھے ؟ آپ اگر سچ مچ کے بہادر یا پاپولر نجات دہند ہ ہیں تو ذرا اسی لب و لہجے میں اصل نیوٹرل کا نام تو لے کر دکھائیں،آپ کو آٹے دال کا بھائو معلوم ہو جائے گا۔

اتحادیوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے حریف کو خواہ مخواہ نالی میں دھکا نہیں دیتے۔توہین عدالت کوئی ایسا ایشو نہیں، جس پر گرفتاری کی کارروائی ڈالی جائے اس پر تو وہ یقیناً معافی مانگ کر اپنے مہربانوں کی ہمدردی حاصل کر لے گا۔ نواز شریف کوپاناما کی بجائے اقامہ میں پکڑنے والوں نے اخلاقی طور پر نواز شریف کی عظمت میں اضافہ کیا ،قوم پر ثابت ہوگیا کہ تین مرتبہ منتخب ہونے والے پر کرپشن کے الزامات محض جھوٹ کا پلندہ تھے، ثابت پائی بھی نہ ہو سکی ۔ اب اگر آپ لوگ اپنے توشہ خانے کی خورد برد یا ممنوعہ فارن فنڈنگ کےالزامات میں بے قصور ہیں تو لائیں یہ معاملات قانون کے کٹہرے میں ۔ (جاری ہے )


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔