26 اگست ، 2022
پاکستان کے چاروں صوبوں کے مختلف علاقے سیلاب کی زد میں آگئے، اب تک 900 سے زائد اموات ہوچکیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے اور فوری امداد کے منتظر ہیں جبکہ لاکھوں کی تعداد میں مویشی بھی پانی میں بہہ گئے ہیں۔
عمارتیں ریت کی دیواروں کی طرح گر گئیں، بپھرے ریلے میں بہہ گئیں، چنگھاڑتے دریائے سوات نے کنکریٹ کے مکان نگل لیے، منہ زور دریا دیکھ کر لوگوں کے دل دہل گئے۔
کالام میں دریا کنارے بنا ہوٹل بھی پانی میں بہہ گیا جسے پہلے ہی خالی کرالیا گیا تھا۔ بحرین میں سیلابی ریلا راستے میں آنے والی ہر شے تنکوں کی طرح بہا لے گیا، درخت جڑ سے اکھڑ گئے، گلیوں اور سڑکوں پر دریا بہنے لگا، گاڑیوں کو اپنے ساتھ لے گیا، ڈرے سہمے شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔
فضا گھٹ، بحرین اور مدین سے بھی شہریوں کو نکالا گیا، کالام کی تاریخی مسجد میں سیلابی پانی داخل ہو گیا۔ مٹہ، سخرہ، لالکو میں رابطہ پلوں کو بھی نقصان ، بحرین اور مدین کے درمیان سڑک سیلابی ریلے میں بہہ گئی۔
سوات کا سب سے بڑا ایوب برج بھی بند کردیا گیا، سوات ایکسپریس وے لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے پلائی کے مقام پر جزوی طور پر بند کردی گئی، ضلع بھر میں ہنگامی حالت نافذ کردی گئی ہے۔
26 اگست رات 11 بجے ضلع چارسدہ کے قریب واقع منڈا ہیڈ ورکس کا پُل سیلابی پانی کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔
اس کی وجہ سے چارسدہ، نوشہرہ اور گرد و نواح کے علاقوں میں سیلاب کا یقینی خطرہ ہے۔ انتظامیہ نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی اور اپنے پیاروں کی جان بچانے کی خاطر اپنے گھروں سے نکلیں اور حکومت کے مقرر کردہ کیمپوں میں تشریف لے جائیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق سول حکومت کی مدد کیلئے چاروں صوبوں میں پاک فوج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور آرٹیکل 245 کے تحت فوج تعیناتی کی سمری وفاقی کابینہ کوحتمی منظوری کیلئے بھجوادی ہے۔
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چاروں صوبائی حکومتوں نےسیلاب متاثرہ علاقوں میں فوج تعینات کرنےکی ریکوزیشن بھجوائی، ریلیف اینڈ ریسکیو آپریشنزمیں مدد کیلئے پاک افواج کی تعیناتی کی جارہی ہے، پاک افواج کو چاروں صوبوں کے سیلاب سے آفت زدہ علاقوں میں تعینات کیا جارہا ہے۔
بپھرے دریا کے بیچوں بیچ پھنسے پانچ دوست مدد کا انتظار کرتے رہے، تین گھنٹے تک پکارتے رہے، مقامی افراد بھی فریاد کرتے رہے لیکن کوئی مدد نہ پہنچی۔
پانچوں دوست طوفانی لہروں میں بہہ گئے، اب تک صرف ایک کی لاش مل سکی ہے۔ لوئر کوہستان میں پیش آئے اس واقعے پر مقامی افراد انتظامیہ پر برہم ہیں جن کا کہنا ہے کہ اگر حکام چاہتے تو ایک گھنٹے میں پشاور یا گلگت سے ہیلی کاپٹر پہنچ سکتا تھا، زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں۔
اپر کوہستان کے اچھاڑ نالے میں بڑے سیلابی ریلے سے داسو ڈیم کے عملے کا رہائشی کیمپ بھی تباہ ہوگیا۔
نوشہرہ میں سیلاب کا خطرہ ، ایمرجنسی نافذ ، لوگوں سے علاقے خالی کرنے کی اپیل کردی گئی۔
ڈی سی نوشہرہ کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلا چار لاکھ کیوسک سے زیادہ کا ہوسکتا ہے ، لوگ جو سامان اٹھاسکتے ہیں اٹھائیں اور ضلع خالی کردیں، خدشہ ہے کہ جی ٹی روڈ بھی چار چار فٹ پانی میں ڈوب سکتی ہے، رات کے اندھیرے میں لوگوں کو نکالنا مشکل ہوجائے گا، اڑتالیس گھنٹوں کے دوران تین لاکھ کیوسک کا ریلا نوشہرہ کے مقام سے گزرے گا۔
ادھر دریائے سوات میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، سیلابی ریلا چک درہ پل کے اوپر پہنچا تو پل کو آمدورفت کیلئے بند کردیا گیا، ہیڈورکس کے مقام پر پل کا ایک حصہ سیلابی ریلے میں بہہ گیا، بے گھر افراد کی عارضی پناہ کیلئے کئی سرکاری اسکولوں کو خالی کرالیا گیا۔
حالیہ بارشوں اور سیلاب نے سبب کچھ درہم برہم کردیا، بلوچستان ریڈار سے غائب، زمینی، فضائی راستے بند، لینڈ لائنز اور موبائل فون سگنلز بھی بیٹھ گئے، سیلاب میں ڈوبے بلوچستان کی خبر ملنا مشکل ہوگئی۔
کوئٹہ 30 گھنٹوں تک بارش اور سیلاب میں گھرا رہا، سیلاب میں پھنسنے والے 500 سے زائد افراد کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام پر منتقل کردیا گیا، مشیرِ داخلہ ضیا لانگو نے وفاقی حکومت سے مدد کی اپیل کی اور کہا کہ کوئٹہ کو سیلاب کا سامنا ہے۔
ادھر سنجاوی میں ڈیم اوور فلو ہوگیا جبکہ پشین میں خانو زئی ڈیم ٹوٹ گیا، چمن میں تین دن سےجاری موسلادھار بارشیں تھم گئیں، سیلاب سے متاثرہ بابِ دوستی بحال ہوگئی تاہم پاک افغان تجارت آج بند رہی۔
بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی کے دریائے لہڑی اور دریائے مولا سے آنے والی سیلابی ریلوں نے آس پاس کے کئی علاقوں میں مزید تباہی مچادی ، درجنوں دیہات زیرِ آب ، ہزاروں لوگ بے گھر ، کئی ایکڑ فصلیں بھی پانی کی نذر ہوگئیں۔
سبی میں دریائے ناڑی میں اونچے درجے کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے، کرش پلانٹ ایریا میں سیلابی پانی داخل ہوگیا، نصیر آباد میں متاثرین چارپائیوں کے ذریعے اپنے بچے کچھے سامان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہیں۔
ادھر مستونگ میں بولان ندی کے سیلابی ریلے سے صبری ڈیم ٹوٹ گیا، سیلابی ریلا بی بی نانی پل بہا لے گیا، 100 سے زائد گاؤں زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے۔ْ پل بہہ جانے سے بلوچستان کا سندھ اور پنجاب سے زمینی رابط ٹوٹ گیا ہے، نوشکی میں بھی نشیبی علاقے زیرِ آب ہیں۔ بولان میں ٹوٹنے والے 130 سال پرانے ریلوے پل کی مرمت میں ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے 85 سالہ عبدالرحمان کا خاندان بھی سیلاب میں بہہ گيا، کہتے ہیں بیوی اور پانچ بچے لاپتا ہیں ، ان کا کچھ پتا نہیں ، کچا گھر بھی پانی کی نذر ہوگیا، ہر ایک کو اپنی پڑی ہے، ان کے بیوی بچوں کا پتا کون بتائے؟
ڈیرہ اسماعیل خان میں قیوم نگر، شیرانی کالونی میں کئی مکان گرگئے، متاثرین نقل مکانی پر مجبور ، اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ ، ڈیرہ اسماعیل خان کا ائیر پورٹ بھی سیلاب میں ڈوب گيا ، فلائٹ آپریشن معطل ، ائیرپورٹ ٹرمینل بلڈنگ، ایپرن سائیڈ اور رن وے دریا کا منظر پیش کرنے لگا، اے ایس ایف کیمپ بھی پانی سے بھر گيا، سیلابی ریلے سے مہمند ڈیم بھی متاثر ، محمکہ آب پاشی نے ڈیم کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ظاہر کردیا، تیمرگرہ میں بھی سیلابی ریلا گھروں میں داخل ہوگیا۔
انسان چھوڑو ، گنّا بچاؤ ، سندھ کے شہر مورو میں وڈیروں نے بے حسی کی انتہا کردی ، اپنی گنے کی فصل بچانے کیلئے سیلابی ریلا آبادی میں چھوڑ دیا، پانی کا راستہ روکنے کیلئے آٹے کی بوریاں رکھ دیں، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ تباہ حال لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں لیکن بااثر افراد کی زمینیں بچانے کیلئے آٹے سے بند باندھے جارہے ہیں۔
مورو میں سیلابی صورتِ حال سے تین چار دیہات کے پانچ سے سات ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں، نیشنل ہائی وے کا ایک ٹریک پانی میں مکمل ڈوب چکا ، صرف ایک ٹریک پر ٹریفک کی آمد ورفت جاری ہے ، خیر پور ناتھن شاہ سے بھی زیادہ تر آبادی نقل مکانی کرچکی ہے، تین سے چار فٹ پانی موجود ہے اور لوگ خود ہی جان پر کھیل کر جان بچانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
دریائے سندھ میں زمیں دارہ بند ٹوٹنے سے کئی بستیاں ڈوب گئیں ، قومی شاہراہ پر سکھر کے قریب نقل مکانی کرنے والوں نے عارضی خیمے بنالیے، بلوچستان سے آنے والا سیلابی ریلا دادو میں داخل ہوگیا، گرڈ اسٹیشن فرید آباد اور تھانہ بھی زیرِ آب آگیا۔
ٹھٹھہ میں پاک فوج کے کرنل علی زیب اور میجر شیر دل نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، خیمے اور راشن تقسیم کیا۔
لاڑکانہ میں محکمہ خوراک کے مرکزی گودام میں چار سے پانچ فُٹ پانی جمع ہے جس کی وجہ سے کروڑوں روپے مالیت کی گندم خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، سکھر آمد پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے ان کا استقبال کیا، وزیر اعظم نے کیمپوں میں جاکر متاثرین سے براہِ راست احوال جانا، شکایات سنیں ، مسائل حل کرنے کا یقین دلایا۔
سکھر میں ضلعی انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے نے وزیراعظم کو بحالی کے کاموں پر بریفنگ دی اور بتایا کہ مواصلاتی رابطے منقطع ہیں، تباہ شدہ انفرا اسٹرکچر کی بحالی کیلئے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں، سندھ میں 43 فلڈ ریلیف کیمپ قائم کرکے ادویات اور کھانا فراہم کیا جارہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی وزیر توانائی کو سندھ میں رہنے کی ہدایت کی اور کہا کہ آج سے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سندھ میں فی گھرانہ 25 ہزار روپے کی تقسیم شروع ہوجائے گی۔
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان بھی عمران خان کے ہمراہ تھے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ موجودہ سیلاب 2010 سے بڑا سیلاب ہے۔ سیلاب سے بچاؤ کا مستقل حل ڈیمز کی تعمیر ہے۔ عمران خان نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان سیلاب سے بہت متاثر ہوئے ہیں، سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق ملک میں 24 گھنٹے کے دوران مزيد 34 افراد زندگی ہار گئے، ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد مکان متاثر ہوئے، سندھ میں 15 پُلوں کو نقصان پہنچا، اس سال سیلابی صورتِ حال سے اب تک 937 اموات ہو چکیں، 8 لاکھ کے قریب مویشی ہلاک ہوئے، 6 لاکھ 70 ہزار گھر متاثر ہوئے، ملک بھر میں انفرا اسٹرکچر متاثر ہوا۔
سکھر اور حیدرآباد میں بارشوں کے باعث آج سے 30 اگست تک ریلوے آپریشن معطل کردیا گیا۔
ترجمان ریلوے کا کہنا ہے کہ لاہور سے کراچی اور کوئٹہ کے درمیان چلنے والی تمام ٹرینوں کو معطل کیا گیا ہے، شدید بارشوں کے باعث متعدد مقامات پر ریلوے ٹریک پر پانی آگیا ہے، مسافر قریبی ریزرویشن آفس جاکر اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں۔
دریائے گلگت میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے، نشیبی علاقے زیرِ آب آگئے ہیں، ریڈ زون سے ملحقہ مصروف شاہراہ ریور ویو روڈ پر ایک درجن سے زائد ہوٹلوں میں پانی داخل ہوچکا ہے، آج رات دریا کی سطح مزید بلند ہونے کا خطرہ ہے۔ غذر میں شدید بارش، لینڈ سلائیڈنگ اور دریائی کٹاؤ سے 100 سے زائد مکانات تباہ ہوچکے ہیں، دریائے غذر میں طغیانی سے متعدد گھر زیرِ آب آگئے ہیں۔
سندھ بھر میں بارشوں سے پیٹ کے امراض میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے، اگست میں ایک لاکھ 45 ہزار سے زائد بچے ڈائریا سے متاثر ہوئے، 14 ہزار سے زائد بچے پیچش کی شکایت کے ساتھ اسپتال لائے گئے۔
کراچی میں ڈائریا کے سب سے زیادہ 35 ہزار کیسز ضلع جنوبی میں رپورٹ ہوئے، رواں سال 6 لاکھ سے زائد بچے ڈائریا سے متاثر ہوچکے ہیں۔