بلاگ
Time 31 اگست ، 2022

پچھلے سیلاب کا حساب کون دے گا؟

یہ بہت زیادہ پرانی بات نہیں، آج سے چند سال پہلے تک ہر سال مون سون کے موقع پر مچھروں کے مارنے کا اسپرےکیا جاتا تھا، شہروں اوردیہات میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات بارشوں اور سیلاب میں بڑھ جاتے ہیں لہٰذااس کی روک تھام کے بھی کچھ انتظامات کر لئے جاتے تھے۔ 

معاشرے میں کچھ تھوڑی بہت شرم و حیا باقی تھی۔ روڈ، سیوریج لائن پل یا انڈر پاس بناتےوقت کمیشن 10سے 15فیصد ہوتا تھا جو اب کسی بھی پروجیکٹ پر لگتا ہے، اور باقی فنڈز کمیشن میں چلے جاتے ہیں۔ اسی لئے پچھلے 20برس میں ہر کام میں شگاف پڑ گیا ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ان نااہلوں اور کرپٹ حکمرانوں اور افسروں کوبے نقاب کر دیا ہے۔

یقین جانیں یہ بات میں پورے اعتماد اور اپنے 40 سال کے صحافتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ اس پریشان کن تباہی کے بعد بھی آنے والی تباہی سے بچاؤکیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے جائیں گے، ابھی تویہ منصوبہ بندی ہوگی کہ امداد میں ملنے والے چند ارب ڈالرز کو کیسے خرچ کرنا ہے، پھر کچھ عرصہ بعد یہ ڈالر کسی افسر یاوزیر کے ’’لاکر‘‘ یا گھر کے تہہ خانے سے برآمد کر لئے جائیں گے پھر کچھ شور مچے گا اور معاملہ پلی بار گین سے طے پا جائے گا۔

عروس البلاد کراچی فی الحال پاکستان کا معاشی انجن ہے، میں بارشوں سے چند سال پہلے ہی بنائی گئی سڑکوں، پائپ لائنوں اور گٹروں کے اُبلنے کا رونا رو رہا تھا، اب تو پورا سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب ڈوب چکا ہے ۔ کیا ہم نے 2005 کے زلزلے سے کوئی سبق سیکھا ؟اس وقت بھی بڑی امداد آئی تھی، نئے شہر آباد کرنے اور عمارتوں کو زلزلہ پروف بنانےکی باتیں ہوئی تھیں۔ کہاں گئی وہ ساری امداد؟ کوئی حساب دے گا۔

پھر 2010آگیا، ایک اورآفت آئی اور سیلاب نے تباہی مچا دی، بڑے پیمانے پر اموات بھی ہوئیں۔ فصلیں بھی تباہ ہوئیں اور لاکھوں لوگ کھلے آسمان تلے آگئے۔پھر وہی باتیں ہوئیں جو اب ہو رہی ہیں۔ اس وقت بھی اربوں روپے سے نئی سڑکیں، پل اور ڈیم بنانے کی باتیں سننے کو ملیں۔ کچھ نقد رقم بھی تقسیم ہوئی، افسر اور وزیر امیر ہو گئےجب کہ لوگ اور غریب، پھر 2020آگیا، بڑی بارشیں ہوئیں۔ نئی بنی ہوئی سڑکیں ، انڈر پاس ، فلائی اوور سب کی تباہی کا منظر آج تک یاد ہے پھر کچھ دکھاوے کا کام ہوا، سوشل میڈیا پر تصاویر شیئر کی گئیں اور دعویٰ کیا گیا کہ اب پوری تیاری کی جائے گی۔

غرض یہ کہ ہر چند سال بعد یہ قدرتی آفات ہمارے حکمرانوں کو خواب غفلت سے جگانے کے لئے آتی ہیں مگر مجال ہے کوئی سبق سیکھا ہو، تاہم، نااہل افسرشاہی کی آنکھوں میں چمک ضرورپیدا ہوتی ہے۔ مزید کمیشن ملنے کا انتظار۔ لہٰذا اطمینان رکھیں کہ چند ہفتوں بعد نہ میڈیا پر یہ خبریں نظر آئیں گی نہ سیاست دانوں کی زبان پرکیوں کہ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے دکان چل رہی ہے تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟

سچ پوچھیں تو ہم بڑی تیزی سے ایک ناکام ریاست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خود تو کبھی حکومتوں نےادارے بنائے نہیں مگر جو کام انگریز کرگئے، ان کو بھی سنبھال نہ سکے۔ ان بارشوں نےبولان کے قریب تقریباً سو سال قدیم ریلوے کا پل بھی گرا دیا۔ اب اگر اس کی مرمت کی جاتی تو شاید یہ بچ جاتا۔ برج تو چھوڑیں، آج تک نئے ریل ٹریک نہیں بن سکے تو بلٹ ٹرین کیا چلائیں گے؟ ریاست کی ناکامی کی علامتیں ہمارے سامنے ہیں۔ چاروں ستونوں میں سے کوئی ایک ایسانہیں جس میں شگاف نہ پڑا ہو، تعلیم ، صحت، پینے کا صاف پانی، بڑھتی ہوئی آبادی پرکنٹرول، مربوط بلدیاتی نظام ،کوئی ایک شعبہ تو ہو جس کے بارے میں اعتماد سے یہ کہا جائے کہ دیکھیں ہم نے یہ کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ ہم تو اس میدان میں بھی پیچھے رہ گئے جہاں ہم آگے نہیں تو کم از کم مقابلے کی دوڑ میں تو شامل تھے۔ یہی نہیں پہلے ہم نے اپنی حفاظت کے لئے ایٹم بم بنایا اور اب ہم اس کی حفاظت میں لگے ہوئے ہیں۔

تاریخ کا سبق یہ ہے کہ جاپان پر دو بم گرائے گئے۔ لاکھوں لوگ مارے گئے تو اس نے جوہری ہتھیار بنانے کی بجائے معاشی قوت بننے کا فیصلہ کیا اور آج ایک ترقی یافتہ جاپان ہمارے سامنے ہے۔ روس معاشی طورپر بد حال ہوا تو ٹوٹ گیا۔ ہمارا حال یہ ہے کہ روس نے ہمیں اسٹیل مل 70کی دہائی میں لگا کر دی، آج درجنوں اسٹیل ملز ہونی چاہئے تھیں۔ ہم ایک کو بچا نہ سکےکیوں کہ ہمیں افغانستان کی لڑائی لڑنی تھی۔ رہنے کو گھر نہیں ہے سارا جہاں ہے ہمارا۔ ایک بار مجھ سےایک غیر ملکی سفارت کار نے کہا، ’’کراچی پورے پاکستان کو چلاتا ہے مگر اس شہر کو چلانے میں کوئی سنجیدہ کیوں نہیں‘‘۔ میں اب اس کو کیا جواب دیتا کہ وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا جب معیشت کا انجن ہی خراب کر دیا جائے تو گاڑی کیسے چلے گی۔

تمام بڑے حادثات اور سانحات کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، ہم ہمیشہ ردِعمل ظاہر کرتے ہیں مگر کبھی آنے والے طوفان کی روک تھام کا انتظام نہیں کرتے۔ریل کا حادثہ ہو گا تو کوئی برسوں ٹوٹا پھاٹک بن جائے گا، سزا تو کس کو کیا ملنی ہے۔

مثلاً پچھلے زلزلے کے بعد یہ سبق ملا تھاکہ جانی نقصانات سے بچاؤ کیلئے کیا کرنا ہے۔ کیا آج کوئی بتائے گا کہ اس تباہی سے بچنے کے کیا ممکنہ انتظامات کئےگئے تھے؟ برسوں سے لکھا جا رہا ہے کہ خدا کیلئے مری، سوات اور اس طرح کے مقامات پر بے ڈھنگے انداز میں ہوٹل نہ بنائیں۔ اب کوئی جواب دے گا، زیادہ دور نہ جائیں پچھلے سال سردیوں میں مری میں جو تباہی آئی تھی کیا کسی کو سزا ملی؟

 برسوں سے لکھا جا رہا ہے کہ کراچی سطحٔ سمندر سے نیچے ہے، خدارا سمندر کے قریب عمارتیں تعمیر نہ کریں کیوں کہ یہ ایک سو نامی کی مار ہے۔ بھائی لوگوں نے پورا ایک نیا سیکٹر بنا ڈالا۔ ایک ایک فلیٹ کروڑوں کا ہے۔ خیر ان سے تو کوئی سوال بھی نہیں کر سکتا۔ دُکھ اور درد یہ ہے کہ تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف گھومتا نہیں ہے آگے ہی جاتا ہے ورنہ تو قدرت نے اس ملک کو ہر طرح سے مالا مال کیا ہوا ہے، حال یہ ہے کہ ہم نعروں سے آگے جا ہی نہیں رہے۔ 75سال میں نہ اچھی قیادت نصیب آئی اور نہ ہی ہم کوئی مربوط نظام بنا پائے۔ کون سا تجربہ ہے جو نہیں کیا۔ تجربہ گاہیں تو ایجاد کرتی ہیں ہم نے صرف ناکامی، نااہلی، جہالت اور کرپشن ایجاد کی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔