05 ستمبر ، 2022
پاکستان میں آرمی چیف کی تقرری کا مرحلہ ماضی میں اہمیت کے ساتھ زیر بحث رہا ہے اور زیادہ اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ بحث سیاسی تناظر میں سیاسی حوالوں سے سیاستدانوں کے درمیان ہی ہوتی رہی ہے جس کے باعث فوج میں سپہ سالار کا اہم ترین منصب متنازعہ صورتحال اختیار کرتا رہا وگرنہ خود فوج کے ادارے میں اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی تنازعہ منظرعام پر نہیں آیا۔
گوکہ پارلیمانی ایوانوں میں بھی اس حوالے سے تذکرہ ہوتا رہا لیکن اس میں ارکان پارلیمنٹ حدود وقیود کو پیش نظر رکھتے رہے۔ یقیناً اس کی ایک بڑی اور شاید واحد وجہ یہ بھی ہے کہ فوج میں آرمی چیف کی تقرری کا حتمی اختیار وزیراعظم کی صوابدید پر ہوتا ہے، جو اس کا آئینی استحقاق ہے اور اسی باعث یہ بحث سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں سے ہوتی ہوئی سیاسی کارکنوں کے درمیان چائے خانوں تک پہنچ چکی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ بعض سیاسی حلقے یہ سوچ رکھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ چونکہ فوج کا داخلی معاملہ ہے اس طرح دیگر اداروں کی طرح یہ فیصلہ بھی خود فوج کے ادارے کو ہی کرنا چاہیے اس حوالے سے وزیر دفاع کی حیثیت سے خواجہ محمد آصف اپنی اس تجویز کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔
تاہم یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی جلسہ عام میں ملک کی فوج کے سربراہ کی تقرری کا تذکرہ ایک انتہائی متنازعہ لفظوں اور غیرذمہ دارانہ انداز میں کیا گیا۔
اس سے قبل اگر کسی مقرر نے جلسے میں اس موضوع پر کوئی بات کی ہے تو تقرری کو میرٹ پر ہونے یا کیے جانے کے حوالے سے کی ہے وہ بھی سپہ سالار کے منصب پر ہرگز نہیں۔
اتوار کو فیصل آباد میں عمران خان نے جلسہ عام میں اس حوالے سے میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری پر الزامات عائد کرتے ہوئے جہاں ان پر سخت لفظوں میں تنقید کی اور فوری طور پر اپنے الیکشن کرانے کے مطالبے کو تسلیم نہ کرنے کے حوالے سے کہا کہ وہ الیکشن کرانے سے ڈر رہے ہیں۔
پھر اپنی دانست میں اس کی وجہ بتاتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ چونکہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری ہونی ہے اور یہ دونوں اپنا فیورٹ آرمی چیف لانے کی کوشش میں ہیں۔