12 ستمبر ، 2022
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین و سابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دینے کی تجویز دے دی۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھاکہ سال 2010 اور موجودہ سیلاب میں بہت زیادہ تباہی ہوئی، سندھ میں سیلاب سے زیادہ تباہی ہوئی، سندھ میں پانی کھڑا ہونے سے چاول کی فصل کاشت نہیں ہوپائے گی، سیلاب کا طویل مدتی حل ڈیمز ہیں، 50 سال میں کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔
ان کا کہنا تھاکہ سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ پانی کی نکاسی نہ ہونا ہے، کراچی میں نالوں پر گھر بن جاتے ہیں، جب تک باقاعدہ نکاسی آب کا نظام نہیں بنتا مسئلہ رہے گا۔
معیشت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھاکہ دوسرا امتحان آرہا ہے ہماری معیشت تیزی سے نیچے جارہی ہے، آئی ایم ایف کا پروگرام سائن کیا، پیٹرول اور بجلی کی قیمت تین گنا بڑھادی، آئی ایم ایف پروگرام کے بعد بھی روپے کی قدر نیچے جارہی ہے ، مجھے خوف ہے جس طرف یہ جارہے ہیں اس حکومت کے پاس کوئی حل نہیں، ایک طرف سیلاب اور اگر دیوالیہ بھی ہوگئے تو یہ بڑی تباہی ہوگی۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ ملک میں سیاسی استحکام صرف الیکشن سے آسکتا ہے، جب ہم گئے تو ڈالر 178 روپے کا تھا ، گروتھ ریٹ 6 فیصد تھی، چار بڑی فصلوں کی ریکارڈ پیداوار تھی، گاڑیوں کی ریکارڈ فروخت تھی، ہمارے دور میں تیل 103 ڈالر سے 115 پر گیا تھا۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ میں نے کہا تھاسیاسی عدم استحکام آیا تو معیشت کسی سے نہیں سنبھالی جائے گی جن کے پاس طاقت ہے ان کو خبردار کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کو سمجھانے کیلئے شوکت ترین کو بھی بھیجا، ان کے پاس سوائے اپنے کرپشن کیسز معاف کرانے کے کوئی پلان نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ تمام کریڈٹ ایجنسیوں نےان کوڈاؤن گریڈ کردیا، ان سے معیشت سنبھالی نہیں گئی، اسٹاک مارکیٹ نیچے آیا ، آئی ایم ایف نے ان پر دباؤ ڈالا تو انھوں نے قیمتیں بڑھا دیں، پاکستان کو 30 ارب ڈالر بیرونی قرض چاہیے، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایشین ڈیولپمنٹ فنڈ کے پیسے بھی مل جائیں تو مشکل سے سات 8 ارب ڈالر ہوں گے، سات یا 8 ارب ڈالر مل بھی جائیں تو باقی پیسے کہاں سے آئیں گے؟
عمران خان کا کہنا تھاکہ جن لوگوں نے اچھی بھلی حکومت گراکر ان کو لے کر آئے ان کو خود سے آج سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پاکستان کا سوچ رہے تھے؟ یا تو یہ لوگ بہت بڑے ذہین ہوتے ان کا ٹریک ریکارڈ ہوتا کہ ملک کو بہتر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ 32سال ان دونوں خاندانوں نے پاکستان پر حکومت کی، جن لوگوں نے ملک کے ادارے تباہ کیا ، کرپشن کی ،کیا آج ان کے پاس کوئی حل ہوگا؟ کیا وہ لوگ ذمہ دار نہیں جنھوں نے سازش کی اور ملک کو آج کہاں پہنچا دیا، آج جو مہنگائی آئی ہے پاکستان میں پہلے کبھی نہیں تھی ، پاکستان کے پاس کوئی ایزی آپشن نہیں جو بھی آئے گا اس کیلئے مسائل کا پہاڑ ہوگا۔
سیاسی استحکام کے حوالے سے پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا تھاکہ جب بھی ملک کو سدھاریں گے تو پہلا طریقہ کار سیاسی استحکام ہوگا، اگر سیاسی استحکام نہیں تو معاشی استحکام نہیں آنا، آج تمام پاکستانیوں کو پریشان ہونا چاہیے، پاکستان جس طرف جارہا ہے ملک سب کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔
الیکشن کمیشن کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھاکہ کبھی کسی الیکشن کمیشن کواتنا جانبدار نہیں دیکھا، شہباز شریف نے الیکشن کمشنر کیلئے اپنے نام دیے اور ہم نے اپنے دیے جس پر ڈیڈلاک ہوگیا، ہمیں ان کے نام منظور نہیں تھے اور انہیں ہمارے، ایسے میں اسٹیبلشمنٹ امپائر بن کرآگئے ہم گارنٹی دیتےہیں یہ آدمی ٹھیک ہوگا۔
ان کا کہنا تھاکہ ضمنی انتخابات میں الیکشن کمیشن نے ہمیں ہرانے کیلئے پورا زور لگایا، اس الیکشن کمیشن نےووٹنگ مشین پراجیکٹ سبوتاژ کیا۔
آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ دنیا میں وہ قوم اوپر جاتی ہے جس میں میرٹ ہو، میں نے کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ اہم ہے میرٹ پر ہونا چاہیے، میں نےکہا نہ آصف زرداری اور نہ نوازشریف اس میرٹ کیلئے کوالیفائیڈ ہیں۔
ان کا کہنا تھاکہ آصف زرداری تیس سال سے پیسے چوری کررہا ہے، ان کی ترجیح میرٹ نہیں اپنا پیسہ بچانا ہے، یہ میری حکومت گراکر اوپر بیٹھے ہیں یہ پاکستان کیلئے نہیں تھا، ہماری 155 اور ن لیگ کی 85 نشستیں ہیں ان کی کوالیفیکیشن کیسے ہے؟ فری اینڈفیئرالیکشن کرائیں اگریہ جیت جاتے ہیں تو پھر اپناآرمی چیف اپائنٹ کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کی پرویژن نکل سکتی ہے یہ کوئی بڑی بات نہیں ملک کی بہتری کے لیے جبکہ وکلا نے بتایا کہ اس کی پرویژن نکل سکتی ہے۔
اس موقع پر عمران خان سے سوال کیا گیا کہ ایکسٹینشن دے دی جائے ؟ جب تک الیکشن نہیں ہوتے؟ تو اس پر انہوں نے جواب میں کہا کہ میں نے ابھی اس پر تفصیل میں نہیں سوچا۔
ان کا کہنا تھاکہ نئے آرمی چیف کا معاملہ نئی حکومت آنے تک مؤخر کردینا چاہیے، نئی حکومت نئے آرمی چیف کا انتخاب کرے۔
توہین عدالت کیس کے حوالے سے عمران خان کا کہنا تھاکہ میں نےکہا میں افسوس کا اظہار کرتاہوں کوئی بات بری لگی ہےتوواپس لیتاہوں، جب مجھےپتاچلاوہ اس سےزیادہ آگےجاناچاہتےہیں تومیں نےکہامیں بات کرناچاہتاہوں۔
ان کا کہنا تھاکہ مجھے موقع ملتا تو شاید وہ کہہ دیتا جو وہ چاہتے لیکن انھوں نے مجھے موقع نہیں دیا۔
الیکشن کے حوالے سے سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ اگرحکومت فری اینڈ فیئرالیکشن کا اعلان کرے توہرچیزپربات کرنے کیلئے تیارہوں۔
ان کا کہنا تھاکہ ذاتی مفادات کیلئے الیکشن کی جلدی نہیں، چار ماہ میں جو عزت ملی پہلے کبھی نہیں ملی مجھے تو یہ سوٹ کررہا ہے لیکن ملک کی معیشت تیزی سے نیچے جارہی ہے خوف ہےہم ڈیفالٹ کی طرف چلےجائیں۔
ان کا کہنا تھاکہ معاشی ماہر سے پوچھ لیں کیا سیاسی استحکام کے بغیر معیشت مستحکم ہوسکتی ہے اور سیاسی استحکام الیکشن سے آئے گا۔