ٹرانس جینڈر ایکٹ، سماجی اقدار پر حملہ

دنیا بھر میں دیگر اقوام پر غلبہ پانے کے طریقے تبدیل ہوچکے ہیں۔جنگوں نے بھی اپنی شکل بدل لی ہے۔اب جغرافیائی سبقت لے جانے کے بجائے تہذیبی سبقت لے جانے کا دور ہے۔اسی جنگ کے دوران مسلم معاشرے پر تہذیبی غلبہ پانے کیلئے مختلف ادوار میں کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

حالیہ دور میں ٹرانسجینڈر ایکٹ کے ذریعے پاکستان کے خاندانی اور معاشرتی نظام پر شدید حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس حملے کا اگربروقت تدارک نہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔

پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عرف عام میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کہا جاتا ہے۔یہ قانون مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں پاس ہوا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی بھر پور مخالفت کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔ 

جب یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو وہاں پر وہ حقائق واضح ہوئے جو پردہ اخفامیں تھے۔آخر کیا وجہ ہے کہ تمام اسلام پسند حلقے اس بل کے حوالے سے تشویش کا شکار ہیں؟کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔کیا یہ بات اتنی ہی سادہ ہے جتنی اس بل کے حق میں رائے رکھنے والے احباب بتا رہے ہیں۔میرے خیال میں ایسا نہیں۔

اس بل کے حوالے سے بڑی چالاکی کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ یہ قوانین تو خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے حقوق پر ڈاکا ڈالا گیا اور ایسے لوگوں کو ان کی کمیونٹی میں شامل کرنے کی کوشش ہورہی ہے جو دراصل ان کا حصہ نہیں ہیں۔ اس بل کی شق نمبر 3 اور اس کی ذیلی شق نمبر 2 کے ذریعے انتہائی خطرناک قانون سازی کی گئی۔جس میں یہ کہا گیا کہ کسی بھی شخص کی جنس کا تعین اس کی اپنی مرضی کے مطابق ہو گا۔اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کوئی مرد اٹھے اوراعلان کر دے کہ مجھ میں تو عورت والی حسیات پیدا ہو چکی ہیں لہٰذا آج سے مجھے عورت سمجھا جائے تو نہ صرف اس کے دعوے کو قبول کیا جائے گا بلکہ اس کے مطابق اس کو دستاویزات یعنی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ بھی جاری کیے جائیں گے۔

اسی طرح اگر کوئی خاتون یہ دعویٰ کرے کہ مجھے عورت رہنا پسند نہیں تو اس کو اس کے دعوے کے مطابق مرد سمجھا جائے گا اور اسے مردوں کی صنف کے مطابق شناختی دستاویزات جاری کر دی جائیں گی۔اس عمل میں نہ تو میڈیکل بورڈ کی پابندی عائد کی گئی اور نہ اس کے نفسیاتی معائنے کی شرط رکھی گئی۔

انسانی جسم کے حوالے سے قرآن کریم کا بڑا واضح حکم ہے کہ کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے جسم میں ایسی تبدیلیاں پیدا کرے کہ جس سے اس کی ساخت تبدیل ہو جائے کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق انسان اپنے جسم کا خود مالک نہیں بلکہ یہ اس کے پاس اللہ تعالی کی عطا کی ہوئی امانت ہے اور وہ اس امانت میں اللہ کی طرف سے طے کردہ اصولوں کے مطابق ہی تصرف کر سکتا ہے۔تاہم’’میرا جسم میری مرضی‘‘والے طبقے کی خوشنودی کیلئے مذکورہ قانون کے تحت ایک سنگین فتنے کا راستہ کھول دیا گیا ہے جس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں رکھی گئی۔

اسی طرح رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا حلیہ اختیار کرتی ہیں اور ایسے مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا حلیہ اختیار کرتے ہیں لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کےذریعے اس کی مکمل آزادی دے دی گئی ہے۔

جنس میں تبدیلی کا اختیار اگر عوام کو دے دیا جائے تو نہ صرف اسلامی تعلیمات کی واضح اور صریح خلاف ورزی ہوگی بلکہ آئین پاکستان کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوگی۔اس قانون کے مطابق اگر عورتوں اور مردوں کو اپنی جنس کی تبدیلی کا کھلا اختیار دے دیا جائے تو پھر اس کے عمل درآمد میں اتنی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی ،جن کا تصور ہی محال ہے۔مثلاً اگر کوئی عورت یہ دعویٰ کر دے کہ آج کے بعد وہ عورت نہیں بلکہ مرد ہے اور اسی کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کر دیا جائے تو پھر جائیداد میں اس کی وراثت کس فارمولے کے تحت تقسیم ہوگی۔کتنے لوگوں کا حق غصب ہوگااور پھر اس کے بعد خاندانی جھگڑوں کا جو سلسلہ شروع ہوگا اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟

اس قانون کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے ہم جنس پرستی کو فروغ ملے گا۔اس قانون کے مطابق کوئی بھی مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی بھی مرد سے شادی کر سکے گا یہی صورت عورتوں میں بھی پیدا ہو سکتی ہے۔اس وجہ سے معاشرتی بگاڑ کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جو معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گا۔ ہم جنسوں کی عالمی تنظیم کی جانب سے اس قانون کی حمایت میں لابنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ طاقت ور حلقے ان این جی اوز سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ڈالرز کی چکاچوند سے ان کی آنکھیں چندھیا گئی ہیں۔حسنِ اتفاق سے اس وقت ایک مرتبہ پھر مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔

میاں شہباز شریف اس گناہ کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں اور اس بدنماداغ کو اپنے ماتھے سے مٹا سکتے ہیں۔مسلم لیگ ن،سود کے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر کے پہلے ہی بڑی جسارت کر چکی ہے، اگر اس معاملے پر بھی وہی روایتی مؤقف اختیار کیا گیا تو ان کو قدرت کے غیظ و غضب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔میں معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً علمائے کرام سے گزارش کروں گا کہ وہ مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈالیں ،اس اہم مسئلے پر اپناکردار ادا کریں اور اس قانون کی واپسی کی سبیل نکالیں ورنہ معاشرتی بے راہ روی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔