21 ستمبر ، 2022
غیر متعدی امراض جیسے امراض قلب، کینسر اور ذیابیطس دنیا بھر میں 74 فیصد اموات کی وجہ بنتے ہیں اور ان کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کی روک تھام سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
یہ بات عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتائی گئی۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ غیر متعدی امراض (جن میں سے اکثر کی روک تھام ممکن ہے) سے ہر سال 4 کروڑ 10 لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جن میں 70 سال سے کم عمر ایک کروڑ 70 لاکھ افراد بھی شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امراض قلب، کینسر، ذیابیطس اور نظام تنفس کے امراض نے اب دنیا بھر میں اموات کے حوالے سے وبائی امراض کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی عہدیدار Bente Mikkelsen نے بتایا کہ ہر 2 سیکنڈ میں 70 سال سے کم عمر ایک فرد ان امراض کے نتیجے میں ہلاک ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اتنی زیادہ ہلاکتوں کے باوجود ان امراض کی روک تھام کے لیے بہت کم سرمایہ کاری کی جاتی ہے جو ایک سانحہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق غیر متعدی امراض جیسے موٹاپے یا ذیابیطس سے وبائی امراض جیسے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
رپورٹ میں انتباہ کیا گیا کہ ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا اس مسئلے پر توجہ مرکوز نہیں کررہی۔
رپورٹ کے مطابق غیرمتعدی امراض سے 86 فیصد اموات غریب یا متوسط آمدنی والے ممالک میں ہوتی ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ دنیا میں سب سے اموات دل کی شریانوں کے امراض سے ہوتی ہیں اور اس حوالے سے افغانستان اور منگولیا جیسے غریب ممالک سرفہرست ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ ان امراض کی روک تھام کافی حد تک ممکن ہے کیونکہ طرز زندگی کے عناصر کے ذریعے ان کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
تمباکو نوشی، ناقص غذا، جسمانی طور پر متحرک نہ ہونا، فضائی آلودگی اور الکحل کا استعمال غیر متعدی امراض کا خطرہ بڑھانے والے بنیادی عناصر ہیں۔
رپورٹ کے مطابق صرف تمباکو نوشی کے نتیجے میں ہر سال 80 لاکھ سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔
اسی طرح ناقص غذائی عادات کے باعث بھی ہر سال 80 لاکھ ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
الکحل کا استعمال ہر سال 17 لاکھ افراد کی زندگیوں کا خاتمہ کردیتا ہے جبکہ جسمانی طور پر متحرک نہ ہونے کے باعث 8 لاکھ 30 ہزار ہلاکتیں ہوتی ہیں۔
عالمی ادارے نے کہا کہ اگر خطرہ بڑھانے والے عناصر کی روک تھام کی جائے تو آئندہ 7 برسوں میں 3 کروڑ 90 لاکھ زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔
رپورٹ میں زور دیا گیا کہ معمولی سرمایہ کاری سے ان امراض کی روک تھام اور علاج میں نمایاں فرق لانا ممکن ہے۔