25 ستمبر ، 2022
یہ ٹرانس جینڈر کون ہے؟یہ ایک مکمل مرد ہے جسمانی طور پر اس کے اندر کوئی نقص نہیں تھا ،شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا لیکن اس کے اندر نفسیاتی طور پر ایسی خرابی پیدا ہوگئی تھی کہ یہ لڑکیوں کی طرح نازد کھانے لگا ،یہ لڑکی تو نہیں تھا لیکن اس نے خود کو لڑکی تصور کر لیا ،اس کے اندر ہم جنس پرستی کی عادت پیدا ہوئی۔
پاکستان میں 2018میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت ایسے لوگ جو مرد ہونے کے باوجود خود کو عورت سمجھتے ہیں یا عورت خود کو مرد سمجھتی ہے وہ خود کواپنی من پسند جنس کے طور پر پیش کرسکتے ہیں ،چنانچہ اس نے بھی خود کو عورت کے طور پر نادرا کے آفس میں رجسٹرکروالیا،اب یہ جسمانی طور پر مرد خو د کو ذہنی طور پر عورت ثابت کر کے ٹرانس جینڈر بن چکا ہے کیونکہ اسے یہ کرنے کی آزادی اس ملک نے دی ہے ۔
بعض لوگ ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ لیتے ہیں ،یہ شدید غلط فہمی ہے ۔ان بیچاروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں انہیں ہیجڑا کہلانے کیلئے کسی قانون کی ضرورت نہیں وہ تو جسمانی طور پر ہی ادھورے ہیں ،نامکمل ہیں ،انہیں تو سپریم کورٹ الگ شناخت دے چکی ہے ،یہ قانون ہیجڑوں کیلئے نہیں بلکہ جسمانی طور پر نارمل مردوں اور عورتوں کیلئے بنایا گیا ہے ،یہ قانون جسمانی طور پر نارمل لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مریضوں کیلئے بنایا گیا ہے ۔
پاکستان کے سب ڈاکٹر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے نفسیاتی افراد کا مکمل علاج موجود ہے ۔وہ دوبارہ ذہنی طور پر نارمل ہو سکتے ہیں تو پھر انہیں ہم جنس پرستی کی طرف راغب کیوں کیا جا رہا ہے ؟ یہ نئے بننے والے قانون کی مہربانی ہے کہ جسمانی طور پر مکمل مرد خو د کو عورت قرار دے کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کرکے ہم جنس پرستی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔یہ عذاب الٰہی کو دعوت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یاد رکھئے اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عظیم گناہ کو پاکستان جیسی مسلمان ریاست میں جائز قرار دے دیا گیا ہے اور پاکستانی لاعلمی کی وجہ سے خاموش ہیں یا پھر جبراََ خاموش کروادئیے گئے ہیں ،ان ہم جنس پرستوں کیلئے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ جس طرح چاہیں ، اپنے من پسند گناہ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس گناہ کا سب کو علم ہے لیکن انہیں روزی روٹی کے شکنجے میں ا س طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی رو حیں بھی قید ہو گئی ہیں۔آواز نہیں اٹھا سکتے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ گناہ کے خلاف زبانی کلامی آواز اٹھانے والوں کا ایمان دل میں برا کہنے والوں سے ایک درجہ اوپر ہو تا ہے۔میں کوشش کرتا رہوں گا کہ اپنے آپ کو ایمان کے اس درجے پر لازمی قائم رکھوں ۔جس میں صرف دل میں برائی کو برا نہ کہا جاتا ہو بلکہ برائی کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہو۔
حالیہ دور میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ذریعے پاکستان کے خاندانی اور معاشرتی نظام پر شدید حملہ کیاگیا ہے۔ حملے کا اگربروقت تدارک نہ کیا گیا تو اس کے تباہ کن نتائج سامنے آئیں گے۔پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018 کو عرف عام میں ٹرانس جینڈر ایکٹ کہا جاتا ہے۔یہ قانون مسلم لیگ ن کے دور حکومت کے آخری مہینوں میں پاس ہوا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے۔یہ ان چند قوانین میں سے ایک تھا جس کے حق میں حکومت اور اپوزیشن نے اتفاق رائے سے ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے اس کی بھرپور مخالفت کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی۔
حسنِ اتفاق سے اس وقت ایک مرتبہ پھر مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔میاں شہباز شریف اس گناہ کا کفارہ ادا کر سکتے ہیں اور اس بدنماداغ کو اپنے ماتھے سے مٹا سکتے ہیں۔مسلم لیگ ن،سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کر کے پہلے ہی بڑی جسارت کر چکی ہے، اگر اس معاملے پر بھی وہی روایتی موقف اختیار کیا گیا تو ان کو قدرت کے غیظ و غضب سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔
میں معاشرے کے تمام طبقات خصوصاً علمائے کرام اور معاشرے کی بااثر شخصیات سے گزارش کروں گا کہ وہ مسلکی اختلافات کو پس پشت ڈالیں ، اس اہم مسئلے پر اپناکردار ادا کریں اور اس قانون کی واپسی کی سبیل نکالیں ورنہ معاشرتی بے راہ روی کا سیلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے ،آمین ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس
ایپ رائے دیں00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔