بلاگ
Time 28 ستمبر ، 2022

قاتل مرد ہوتا ہے نہ عورت

ایاز امیر صاحب کے فرزند شاہنواز کے ہاتھوں اپنی بیوی سارہ کے قتل کے بعدسوشل میڈیا پر مردوں کے خلاف ٹرینڈ چل رہا ہے ۔ پاکستان اور بھارت جیسے ملکوں میں یہ کوئی پہلی غیر ملکی شہریت رکھنے والی خاتون نہیں ، جسے مار ڈالا گیا ہو ۔ مقتولہ ایک طاقتور ملک کی شہری ہے؛لہٰذا انصاف ملنے کی خاصی امید ہے ۔

انسان ان جانداروں میں شمار ہوتاہے ، جن میں نر کا قد کاٹھ اور جسمانی طاقت مادہ کی نسبت کافی زیادہ ہوتی ہے ۔ شیروں میں بھی ایسا ہی ہوتاہے ۔ مادہ نر کوجسمانی طور پر زیر نہیں کر سکتی ۔انسانی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کو پچھاڑ ڈالتا تو بچے قتل کر دیے جاتے اور خواتین زندہ رکھی جاتیں کہ ان سے اپنی اولاد پیدا کی جائے۔ شیروں میں آج بھی یہی ہوتاہے ۔ انسانوں میں جبلت جانوروں جیسی ہی ہوتی ہے بلکہ وہیں سے آئی ہے۔

حالیہ ڈیڑھ دو صدیوں میں دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین کے حقوق کی جنگ لڑی گئی ۔ ان تحریکوں کا لبِ لباب یہ تھا کہ موقع ملنے پر مرد خواتین پہ حملہ آور ہوتے ، جنسی زیادتی کرتے اور پھر قتل کر ڈالتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں خصوصی قانون سازی ہوئی کہ عورت کو تحفظ فراہم کیا جائے کہ وہ کمزور ہے۔ امریکہ اور برطانیہ میں بیوی کے ایک فون پر پولیس شوہر کو لے جاتی ہے ۔ طلاق کی صورت میں آدھی جائیداد بیوی کو ملتی ہے ۔

 فروری 2016 میں پنجاب میں تحفظِ خواتین ایکٹ کے نام سے ایک قانون بنایا گیا تھا کہ متشدد مردوں کو ٹریکر والے کڑے پہنا دیے جائیں ۔ انہیں اپنی بیویوں سے فاصلے پر رہنے کا حکم دیا جائے ۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتاہے کہ حکومت یا ریاست اگر اپنا پورا زور بھی لگا دے تو کیا وہ گھر کے اندر گھس کر شوہر اور بیوی کے تعلقات ٹھیک کر سکتی ہے ؟معاشی طور پر پاکستانی عورتوں کی ایک عظیم اکثریت مرد وں پہ انحصار کرتی ہے ۔ وہ طلاق لے کر کہاں جائے ۔ اچھے خاصے امیر مردوں کی بیویاں بھی کبھی نہ کبھی یہ کہتی پائی جاتی ہیں کہ کاش میرے پاس کوئی دوسرا ٹھکانا ہوتا۔

یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت سے ۔ آپ مرد ہیں ، بیوی عورت، بیٹی عورت، بیٹا مرد۔ یاتو دنیا اس طرح سے بنائی گئی ہو کہ عورتوں کے ملک الگ ہوں اور مردوں کے الگ تو عورت اور مرد کی تقسیم کو ذہن میں رکھنا سمجھ میں آتا ہے ۔ میرا نہیں خیال کہ کبھی کوئی قانون اس طرح سے بنا ہو کہ مرد اگر قتل کرے تو اسے ایک سزا دی جائے ، عورت کرے تو دوسری ۔چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو بڑی عمر کے مرد جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر ڈالتے ہیں ۔ قاتل بھی مرد، مقتول بھی مرد۔اس پر کیا ایک عورت کو کندھے اچکا کر یہ کہہ دینا چاہیے کہ ایک مرد نے دوسرے مرد سے زیادتی کی، مجھے اس سے کیا۔

تقسیم تو ظالم اور مظلوم کی ہوتی ہے ۔مجرم تو مجرم ہوتا ہے ۔ کیا یہ پاگل پن نہیں کہ سارا فوکس مجرم کی جنس پر کر دیا جائے اور اسی بنیاد پر ردعمل دیا جائے ۔گوانتانا موبے میں امریکی خواتین مسلمان مردوں کو برہنہ کر کے ان پہ تشدد کرتی رہیں ۔بے شمار کیسز ایسے ہیں ، جن میں عورت نے آشنا کے ساتھ مل کر خاوند کو قتل کر ڈالا ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عورت کو ذمہ دار قرار دیا جائے۔ایک عورت نے بے وفائی کی ہے ، سب نے نہیں ۔

رسالت مآبؐ نے فرمایا تھا کہ جو تعصب پر آواز دے ، وہ ہم میں سے نہیں۔ انسانی ذہن تعصب پر فوراً لبیک کہتا ہے ۔ دو مسلمانوں کو اگر آپ پنجابی ، پشتون کی تقسیم پر لڑا سکتے ہیں تو مرد اور عورت کی جنگ بھی برپا کروائی جا سکتی ہے ۔ حاصل کیاہوگا؟ دنیا میں بے شمار مرد ظالم ہیں مگر بیویوں اور بیٹیوں کے لیےسائبان بھی۔ بہت سی عورتیں شوہروں کے غلط رویے کا شکار رہتی ہیں ۔

 دوسری طرف وہ بھی عورت ہی تھی ، جس نے حضرت یوسفؑ کو زنداں تک پہنچا دیا تھا۔ دنیا کی سب سے طاقتورخفیہ ایجنسی سی آئی اے کا چیف جنرل ڈیوڈ پیٹریاس دو عورتوں کی باہمی رقابت کا شکار ہو کر نوکری سے فارغ ہوا ۔ ’’لال لال لہرائے گا ‘‘ کے دوران ایک مرد کے گلے میں پٹہ ڈال کر اسے چار ٹانگوں پہ چلایاگیا ۔

کیا یہ پاگل پن نہیں کہ ایک ہی گھر میں رہنے والے مرد اور عورتیں جنس کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔آج اگر پاکستان اور بھارت کی جنگ ہو جائے تو نہ کوئی سندھی ، پنجابی، بلوچی اور پٹھان باقی رہے گا اور نہ کوئی مرد اور عورت کی تقسیم بچے گی۔ فقط ایک قوم نظر آئے گی ۔

کسی معاشرے میں تباہی کی اصل وجہ جنس ہرگز نہیں بلکہ مجرم کا سزا سے بچ نکلنا ہے ۔قرآن میں لکھا ہے کہ زندگی قصاص میں ہے ۔ مغرب والو ں کے کیا کہنے کہ بیوی کو آدھی جائیداد کا حق دے کر ساتھ ہی بغیر شادی کے اکھٹے رہنے کا حق بھی عنایت کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ قتل کرنے والے کو قتل کی سزا ہرگز نہ دی جائے گی ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ دو مرد آپس میں شادی کر سکتے ہیں اور دو عورتیں بھی ۔ ان سے اگر ہمیں ’’ہدایت ‘‘ لینی ہے تو ہمارا بیڑا پار ہے ۔ جہاں تک ایاز امیر صاحب کے بیٹے شاہنواز کا تعلق ہے تو قاتل مرد ہوتا ہے اور نہ عورت ۔وہ صرف اور صرف قاتل ہوتا ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔