دفتر وزیر اعظم نے سائفر کیسے بھونڈے طریقے سے انجام دیا!

اس سال مارچ کے دوسرے ہفتے میں وزارت خارجہ کی جانب سے بہت زیادہ زیر بحث سائفر کی کاپیاں پانچ اہم حکام کو بھیجی گئی تھیں لیکن سوائے دفتر وزیراعظم کے دیگر تمام افراد نے معیاری آپریٹنگ طریقہ کار کے مطابق ایک ماہ کے بعد دستاویز ایف او کو واپس کردی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم دفتر کے نامزد جوائنٹ سیکرٹری، جو وزیراعظم کو دکھانے کے بعد ایسی دستاویز حاصل کرنے اور اسے اپنی محفوظ تحویل میں رکھنے کا مجاز ہے، کو سائفر کاپی کبھی نہیں ملی۔ پی ایم آفس کی فائلوں میں اس مخصوص سائفر کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے جسے انکوائری کرنے پر معلوم ہوا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کو ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے دیا تھا۔

دفتر وزیر اعظم کے پاس صرف سائفر کے سا باز کئے گئے منٹس ہیں جیسا کہ عمران خان، اعظم خان، اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی حال ہی میں لیک ہونے والی آڈیو میں بات کی گئی ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزارت خارجہ نے واشنگٹن میں اپنے سفیر سے سائفر وصول کرنے کے فوراً بعد اس کی کاپیاں پانچ اہم حکام یعنی وزیراعظم، وزیر خارجہ، سیکرٹری خارجہ، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ وزارت خارجہ کا فیصلہ ہے کہ حساسیت یا اہمیت کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کا سائفر بھجوانا چاہیے۔

تمام متعلقہ افراد کو کاپیاں ارسال کر دی گئیں۔ وزیر اعظم کے معاملے میں وزیر اعظم کے سیکرٹری کے ایک ڈپٹی سیکرٹری کو وزارت خارجہ نے بلایا اور ایک مہر بند لفافے میں سائفر کی کاپی فوری طور پر اعظم خان تک پہنچانے کی ہدایت کی۔ اعظم خان کو ڈپٹی سیکرٹری نے موبائل فون کے ذریعے مہر بند لفافے کے بارے میں آگاہ کیا لیکن انہوں نے اسے اگلی صبح اپنے دفتر میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ ایسا کردیا گیا۔

وزیر اعظم کے ریکارڈ سے سائفر کاپی غائب ہونے پر وزیر اعظم آفس کی ابتدائی انکوائری پر اعظم خان نے بتایا کہ انہوں نے سائفر کی کاپی وزیر اعظم (عمران خان) کے حوالے کر دی تھی۔ قائم کردہ ایس او پیز کے تحت اس طرح کا سائفر باضابطہ طور پر وزیر اعظم کے دفتر کے جوائنٹ سکریٹری کو موصول ہوتا ہے۔ جوائنٹ سیکرٹری اسے وزیراعظم کو دکھاتا ہے اور پھر اسے اپنی حفاظت میں رکھتا ہے۔

ایک ماہ بعد سائفر کی کاپیاں وزارت خارجہ کو واپس کر دی جاتی ہیں جو ان تمام دستاویزات کو اپنی محفوظ ترین الماریوں میں محفوظ کرتا ہے۔ تاہم اس معاملے میں نہ تو سائفر وزارت خارجہ کو واپس کیا گیا اور نہ ہی دفتر وزیر اعظم یا اس کے متعلقہ جوائنٹ سیکریٹری کے پاس اس دستاویز کے اندراج، نقل و حرکت یا ٹھکانے کے بارے میں اپنے سرکاری ریکارڈ میں کوئی اشارہ ہے۔

یہ اعظم خان ہی تھے جن سے جب وزیر اعظم کے دفتر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے موجودہ حکومت کو بتایا کہ انہوں نے یہ دستاویز وزیراعظم عمران خان کے حوالے کی تھی۔ حالیہ آڈیو لیکس سے ظاہر ہوا کہ کس طرح اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری نے اسے امریکی سازش بنانے کے لیے جوڑ توڑ کا فیصلہ کیا۔

ایک دن بعد بنی گالہ میں ہونے والی ملاقات میں دونوں کے ساتھ اسد عمر اور شاہ محمود قریشی شامل ہوئے، جہاں عمران خان کو سائفر پر بات کرنے کے لیے سیکریٹری خارجہ کو اگلے اجلاس میں مدعو کرنے کا مشورہ دیتے سنا گیا۔ خان کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا کہ میٹنگ کے منٹس خاموشی سے ریکارڈ کیے جائیں گے۔ سکریٹری خارجہ کے علم میں لائے بغیر سائفر کے سا ز باز سے معنی اخذ کیے جا رہے تھے جیسا کہ اعظم خان نے پہلی آڈیو لیک میں تجویز کیا تھا۔

مزید خبریں :