جیو فیکٹ چیک : پاکستان کے سرکاری اسپتالوں میں صحت کارڈ کو بند نہیں کیا گیا

دعوے کے برعکس صحت سہولت پروگرام کو پاکستان بھر میں کہیں بھی معطل نہیں کیا گیا ۔

مظاہرین اور متعدد سوشل میڈیا صارفین نے الزام لگایا کہ ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے ہیلتھ انشورنس پروگرام کو نئی حکومت نے بند کر دیا ہے۔

یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔

دعویٰ

ٹوئٹر پر ہزاروں بار دیکھی جانے والی اور ری ٹوئٹس حاصل کرنے والی ایک ویڈیو میں، لندن میں ایون فیلڈ کے باہر پاکستانی مظاہرین میں سے ایک نے شکایت کی ہے کہ اپریل میں اقتدار سنبھالنے والی اتحادی حکومت نے پاکستان میں شہریوں کے لیے ہیلتھ انشورنس پروگرام بند کر دیا ہے۔

ویڈیو میں ایک خاتون مظاہرین کہتی ہیں، " ابھی بیٹی (مریم نواز شریف)ملنے کے لئے نہیں نہ آئی، وہ کہہ کے آئی ہے میں چھوٹی سی سرجری کروانے جا رہی ہوں، وہاں پر غریب لوگوں کا صحت کارڈ بند کروا کر، اپنی چھوٹی سی سرجری لندن میں، بیٹے کی شادی لندن میں، باپ بیمار لندن میں، ماں بیمار لندن میں، ان کی سرجری لندن میں، حکومت پاکستان میں؟ "

مریم نواز شریف پاکستان مسلم لیگ (ن) جو اس وقت اقتدار میں ہے، کی نائب صدر ہیں۔

ویڈیو کو اب تک 198,000سے زیادہ ویوز اور 22,000سے زیادہ لائکس مل چکے ہیں۔

ٹیلی ویژن کےمعروف اینکر عمران ریاض خان، جن کے ٹوئٹر پر تقریباً 40 لاکھ فالوورز ہیں، انہوں نے بھی یہ ویڈیو شیئر کی۔

حقیقت

دعوؤں کے برعکس صحت کارڈ کے نام سے جانا جانے والا قومی صحت انشورنس پروگرام پاکستان کے کسی بھی حصے میں معطل نہیں کیا گیا ۔

جیو فیکٹ چیک نے تصدیق کے لیے صحت کے حکام کے ساتھ ساتھ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور اسلام آباد کے سرکاری اور نجی اسپتالوں سے رابطہ کیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے صحت کارڈپہلے خیبرپختونخوا میں اور پھر باقی پاکستان میں اس وقت نافذ کیا جب وہ 2018ء اور 2022ءکے درمیان اقتدار میں تھے۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کو اس سال عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، اس کے باوجود آنے والی حکومت نے ہیلتھ پروگرام کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔

کراچی میں موجود ڈاؤ یونیورسٹی اسپتال کےصحت سہولت افسر نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ ان کے اسپتال میں صحت کارڈ فعال ہے۔

 ان کا کہنا تھا کہ، " ڈاؤ اسپتال میں تمام مریض جو کارڈیک، آرتھوپیڈکس، آنکولوجی، اور نیورو سرجری کے لیے اسپتال آتے ہیں، ان کا علاج ہیلتھ کارڈ پروگرام کے تحت کیا جاتا ہے۔"

لاہور کے شیخ زید میڈیکل کمپلیکس کے ہیلتھ آفیسر نے بھی یہی بات کہی۔ انہوں نے مزید کہا کہ،" ہیلتھ کارڈ کو کارڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے علاو ہ باقی تمام شعبوں میں استعمال کیا جا رہاہے۔"

جیو فیکٹ چیک نے پھر پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس سے رابطہ کیا۔ مجیب عالم، ہیلتھ سہولت آفیسر نے تصدیق کی کہ، " ہیلتھ کارڈآنکولوجی سے متعلق علاج کے علاوہ ہر چیز کے علاج کے لئے آپریٹو ہے۔"

آزاد جموں و کشمیر کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ اسپتال میرپور کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ عامر عزیز نے بھی کہا کہ،" ہیلتھ کارڈ میں سارے ڈیپارٹمنٹس ہیں ،سرجری، گائنی ، یہ بنیادی طور پر کیونکہ اسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں سے متعلق ہوتا ہے نا، توجو مریض داخل ہوتے ہیں، ان کے لئے یہ سہولت میسر ہوتی ہے، ہم ان کو دوائیاں وغیرہ فراہم کر دیتے ہیں۔"

گلگت کے صوبائی ہیڈ کوارٹر اسپتال کے ترجمان راجہ علمدار نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ،" یہاں ہیلتھ کارڈ ہے۔ ہیلتھ کارڈ کے اندر جو اسپتال میں مریض داخل ہیں ان کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 3000 روپےکی حد ہے۔"

اسلام آباد میں نیوکلیئر میڈیسن آنکولوجی اینڈ ریڈیو تھراپی انسٹی ٹیوٹ کے ہیلتھ سہولت افسر نے تصدیق کی کہ یہاں پر ہیلتھ کارڈ استعمال میں ہے۔

تاہم، بلوچستان واحد صوبہ تھا جہاں ہیلتھ انشورنس پروگرام کو ابھی تک نافذ کرنا باقی ہے۔

بلوچستان کے محکمہ صحت کے ایک اہلکار ڈاکٹر وسیم بیگ نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ،" صوبے میں ہیلتھ کارڈ کا اقدام ابھی شروع نہیں ہوا۔ یہ ابھی تک عمل میں ہے۔"

پاکستان میں اس وقت 1031اسپتال ہیں جو وقت ہیلتھ کیئر پلان میں شامل ہیں۔

نوٹ: ہمیں @GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگر آپ کو بھی کسی غلط کا پتہ چلے تو ہم سے [email protected] پر رابطہ کریں۔