عمران اس اسٹیبلشمنٹ سے الیکشن مانگتے ہیں جس کا وہ مذاق اڑاتے ہیں

حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں/فوٹوفائل
حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں/فوٹوفائل

اسلام آباد : حکمران اتحاد جلد الیکشن نہیں چاہتا لیکن عمران خان نے پیر کو اسٹیبلشمنٹ کو آخری موقع دیتے ہوئے الیکشن کا مطالبہ کیا جس کیلئے اسٹیبلشمنٹ تیار نہیں بصورت دیگر، عمران خان نے خبردار کیا کہ وہ لانگ مارچ کا اعلان کر دیں گے۔

خود کو سیاست سے دور کرنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانا چاہتی۔ حکومت سے باہر نکالے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل اسٹیبلشمنٹ سے مداخلت اور جلد الیکشن کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

موجودہ حکومت کے ابتدائی دنوں سے اسٹیبلشمنٹ کوشش کر رہی ہے کہ دونوں سیاسی فریقین مل بیٹھ کر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالیں لیکن اُس وقت پی ٹی آئی نے سخت مؤقف اختیار کیا اور عمران خان نے25؍ مئی کو لانگ مارچ کا اعلان کیا۔

عمران خان کے 25؍ مئی کے مارچ نے اسٹیبلشمنٹ کو مایوس کیا جو دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کیلئے مدد کر رہی تھی۔ پیر کو عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ پس پردہ مذاکراتی عمل جاری ہے لیکن یہ آگے نہیں بڑھ رہا کیونکہ نواز شریف اور حکمران اتحاد جلد الیکشن کیلئے تیار نہیں۔

25؍ مئی کے لانگ مارچ کے بعد حکمران اتحاد نے فیصلہ کرلیا کہ حکومت اپنی مدت مکمل کریگی اور عمران خان کیساتھ جلد الیکشن کے آپشن پر بات نہیں ہوگی۔ عمران خان کی پیشگی شرط جلد الیکشن کیلئے مذاکرات ہے۔ عمران خان، ان کی پارٹی کے کچھ رہنماء اور سوشل میڈیا ٹیم سخت انداز سے اسٹیبلشمنٹ کو گزشتہ چند ماہ سے ہدف بنائے ہوئے ہیں تاکہ انہیں دباؤ میں لاکر موجودہ حکومت کو نکال باہر کیا جائے اور جلد الیکشن کی راہ ہموار کی جا سکے۔

تاہم، اسٹیبلشمنٹ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ عمران خان کی خواہش کے مطابق سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عمران خان نے کھل کر اس توقع سے اسٹیبلشمنٹ کا مذاق اڑایا کہ اُن کی دباؤ ڈالنے کی چال کارگر ثابت ہوگی لیکن عمران خان کو مطلوبہ نتائج نہیں ملے۔

صدر عارف علوی نے کوشش کی، کچھ پی ٹی آئی رہنماؤں پرویز خٹک اور فیصل واوڈا نے بھی عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ماضی کے تعلق کو جوڑنے کی کوشش کی۔ تاہم، ایسا دو وجوہات کی بناء پر نہیں ہو پایا۔ اول، اسٹیبلشمنٹ سیاسی جوڑ توڑ کی اپنی ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانا چاہتی۔ دوم، عمران خان اور انکی جماعت نے اسٹیبلشمنٹ کی توہین کے معاملے میں تمام حدیں پار کر لی ہیں۔

سینیٹر اعظم سواتی کی حالیہ ٹوئٹس اور اس کے بعد عمران خان کی جانب سے سواتی کے خیالات کی تائید بھی توہین آمیز رہی۔ اب عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے امید ہے کہ وہ موجودہ حکومت کو ہٹا کر جلد الیکشن کرائے گی۔ ایسے رویے سے عمران خان نہ صرف موجودہ اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد کھو چکے ہیں بلکہ وہ مستقبل کی اسٹیبلشمنٹ کیلئے ناقابل پیش گوئی شخص بن چکے ہیں۔

جو لوگ اب معنی رکھتے ہیں؛ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح عمران خان نے اُن لوگوں کی توہین و تضحیک کی جنہوں نے عمران خان کو 2018ء میں اقتدار میں لانے کیلئے کیا کچھ نہیں کیا۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ غیر سیاسی رہنا چاہتی ہے تاکہ مستقبل کی اسٹیبلشمنٹ کو غیر جانبداریت کا ماحول دے کر جاسکے، یہ ادارے اور ملک کے مفاد میں ہے۔

مزید خبریں :