04 نومبر ، 2022
لاڈلے کی سوچ سے ہم لاکھ اختلاف کریں ،اس کی بُری کارکردگی پر جتنی چاہیں تنقید کریں ایک بات بہرحال ماننا پڑے گی کہ وہ ہمیشہ سے ’’نیوز میکر ‘‘بنا رہا ہے۔ سیاسی اناڑی ہونے کے باوجود وہ خبروں میں رہنے کا فن خوب جانتا ہے، لہٰذاآئے روز وہ کوئی نئی سے نئی ایسی پھلجھڑی چھوڑ دیتا ہے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کالم اسی کا بن جاتا ہے۔
اقتدار سے باہر تو وہ ہو ہی چکا ہے امکان ہے، سیاست سے بھی باہر ہو جائے گا۔ یہ تو ہماری محترمہ عظمیٰ بی بی کی دریا دلی اور خصوصی عنایت و مہربانی ہے جو وہ سیاست میں یوں دندنا رہا ہے یا پھر شہباز انتظامیہ کی حماقتیں ہیں جو ملک بچانے کے نام پر بے دردی سے عوام پر کبھی پٹرول بم گراتی رہی اور کبھی اسے بجلی کے جھٹکے لگاتی رہی ،جس سے اس مردہ گھوڑے میں جان پڑ گئی جبکہ ان کی اپنی مقبولیت قریب المرگ ہو کر رہ گئی تھی ۔
اب بھی تشویش کی بات نہیں لیکن طاقتوروں کی پرانی محبت کسی گوشے میں نہ جاگ اٹھے اور اسلام آباد پہنچنے پر لانگ مارچ کے ڈرامے کو بہتر حکمت عملی سے ڈیل کیا گیا تو اس کا ڈراپ سین خونریزی کی بجائے کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ لاڈلا اس حوالے سے کوئی لگی لپٹی بھی نہیں رکھتا بلکہ مارشل لاء کے سوال پربھی اس نے صاف کہہ دیا کہ ’’مارشل لاء لگانا ہے تو لگائیں مجھے کیا ڈرا رہے ہیں‘‘۔ بات ڈر کی نہیں خواہش کی ہے، مطلب اگر اقتدار مجھے نہیں ملنا تو پھرمیرے سیاسی مخالفین کو بھی کیوں ملے، فوجی آتی ہے تو پھر کیا ہوا؟یہ ہے ہمارے اس لاڈلے کی ذہنیت جو اس کی تمام تر تقاریر و بیانات سے باآسانی پڑھی و سمجھی جا سکتی ہے۔
کوئی بھی شخص جو پرستش کی حد تک اپنی ذات کےعشق میں گرفتار ہو اس کی ذہنیت ازل سے یہی بنتی رہی ہے البتہ ملک و قوم کو اس ذہنیت سے ضرور فرق پڑتا ہے۔آج ہی کی صورتحال ملاحظہ فرمالی جائے، لاڈلے پن کو اگر یونہی سروں پرسوار رکھا گیا اور اس کے نتیجے میں حالات کا بگاڑ طاقتوروں کو براہ راست سامنے لانے کا باعث بنا تو کیا آج کا کمزور پاکستان مارشل لاء کا بھاری بوجھ اٹھا پائے گا؟ ہماری ڈوبتی معیشت امریکہ اوریورپ سمیت عالمی اقتصادی پابندیاں کیسے سہہ پائے گئی؟
لاڈلا تو خود کو مہم جو نجات دہندہ خیال کرتا ہے وہ اپنے چھوٹے یا بڑے جلسوں میں کہہ رہا ہے کہ ’’پچھلے چھ مہینوں سے انقلاب دیکھ رہا ہوں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ یہ انقلاب بیلٹ سے آئے گا یا خونریزی سے؟ اس نے حکمرانی میں ہوتے ہوئے اپنی اپوزیشن پر جتنا اور جو بھی گند پھینکا تھا آج وہ صاف کہہ رہا ہے کہ اس نے یہ سب کچھ کسی کے کہنے پر کیا تھا ’’نواز اور زرداری چور ہیں‘‘ یہ اسے اسٹیبلشمنٹ نے بتایا تھا، مریدکے میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر تم خود ان چوروں کے ساتھ مل گئے ہو تو معاف کرنا میں یہ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ آپ لوگوں کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی نہیں تھی جس نے یہ ثابت کیا کہ نواز شریف کرپٹ ہے۔
اس رواداری کے باوجود ہمارا لاڈلا دوسروں کو کرپٹ قرار دیتے ہوئے اپنے اوپر ثابت ہونے والی چوری کی وضاحت کرنا نہیں بھولا اورفوراً کہا، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ چوری اور کرپشن میں کیا فرق ہوتا ہے جو گھڑی چرائے یا فون وہ چور ہوتا ہے جو ملک کا پیسہ باہر لے جائے وہ کرپٹ ہوتا ہے کیونکہ اس سے ملک تباہ ہو جاتا ہے جبکہ گھڑی چرانے جیسے چھوٹے چوروں کو زیادہ سے زیادہ جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ ماشااللہ کیا خوب کھلاڑیوں جیسی وضاحت پیش کی ہے، البتہ یہ نہیں بتایا کہ اگر گھڑی یا توشہ خانہ چوروں کو جیل نہ بھیجا جائے تو کیا یہ کسی بھی ملک میں قانون کا دہرا معیار نہیں ہوگا؟
عرض مدعا یہ ہے کہ لاڈلا اتنا کچھ ہونے کے باوجود آج بھی کلی طور پر ریورس نہیں ہوا اور کسی معجزے کے انتظار میں ہے کہ اس کے سر پر پھر وہی طاقتور دست شفقت سایہ فگن ہو جائے، اس کیلئے وہ دو تین مخصوص ہستیوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے کسی ابرِ رحمت کا منتظر ہے کیونکہ اندر سے اسے اپنی عوامی مقبولیت کے سطحی پن کا بخوبی ادراک ہے، اسی خوف سے وہ انتخابی معرکے کی شتابی میں مبتلا ہے اور اپنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی پر پیہم مصر۔
اس وقت بظاہر وہ چاروں شانے چت ہے بالخصوص مہربانوں کی پریس کانفرنس کے بعد رہی سہی کسر نواز شریف کے اس بیان نے نکال دی ہے کہ یہ دوہزار کا جتھہ لائے یا بیس ہزار کا، شہباز شریف تم نے اس کا کوئی مطالبہ نہیں سننا اور نہ ہی فیس سیونگ دینی ہے۔ اس کا سارا زور حسبِ عادت گالم گلوچ تک محدود ہے شہباز تم نے ساری توجہ عوامی خدمت پر مرکوز رکھنی ہے، نواز شریف نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ تمہارے وہ دس لاکھ کہاں ہیں جن کےتم دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے؟
اب آ جا کے لاڈلے کے سامنے ایک ہی آخری امید رہ گئی ہے، یہ کہ جیسے تیسے اسلام آباد پہنچ کر صورتحال اس قدر بگاڑی جائے جس سے کسی بھی پیمانے پر خونریزی ہو جائے، جس طرح سے اس کی اپنی صفوں سے اس نوع کی خبریں پھیلائی بھی جا رہی ہیں کہ کتنی بندوقیں ہیں؟کتنے بندے ہیں؟ بندوقیں کے لائسنس ہیں یا نہیں، کیمپ لگانے کیلئے نقشے درکار ہیں۔ کے پی کے میں پتھروں سے بھری کچھ ویگنوں اور غلیلوں کا بھی اہتمام ہے وغیرہ وغیرہ۔
اگر یہ لوگ فیس سیونگ نہیں دے رہے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ خود ہی انقلاب کو تحریک میں بدلنے کا اعلان کرتے ہوئے اگلے آٹھ دس مہینے سڑکوں پر ہی ر ہا جائے تاکہ یہ مومینٹم کہیں ٹوٹ نہ جائے ۔ایسی صورت میں اگر ظاہری دو مطالبات....نئے آرمی چیف کی مشاورتی تعیناتی اور قبل ازوقت انتخابات کی تاریخ منظور نہیں ہوتے تو خون خرابے کی صورت میں یہ ساری گیم ان چوروں کےہاتھ سے نکل سکتی ہے۔ شاید آج کل اسی ذہنیت کا نام تبدیلی ہے کہ ’’ ناں کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے‘‘ یعنی اگر ہم نہیں تو پھر کوئی اور بھی نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔