مچھیروں کی بستی امیر ترین ملک

دنیا کا مہنگا ترین اسپورٹس ایونٹ یعنی فٹبال ورلڈکپ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں شروع ہوچکا ہے ۔بتایا گیا ہے کہ اس فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد پر اخراجات کا تخمینہ لگ بھگ 220بلین ڈالرہے۔

پاکستان کا سالانہ بجٹ تقریباً47بلین ڈالر ہے یعنی کھیلوں کے اس مقابلے پر خرچ کی جارہی رقم پاکستان کے پانچ سال کے بجٹ کے برابر ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ فٹبال ورلڈ کپ پہلی بار کسی عرب ملک میں ہورہا ہے اور ایک مسلم ملک کو میزبانی کا شرف حاصل ہوا ہے۔

آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنیاں اور فلک بوس عمارتیں دیکھ کر شاید کسی کو یقین نہ آئے کہ قطر کا دارالحکومت دوحہ محض 100بر س قبل اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ایک ایسی پسماندہ بستی تھی جہاں خانہ بدوش ماہی گیروں کا بسیرا ہوا کرتا تھا۔یہ مچھیرے سمندر کنارے ریت میں سے موتی کھنگالتے یا پھر مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کیا کرتے تھے ۔1922ء میں یہاں 30لاکھ باشندے آباد تھے مگر غربت و تنگدستی اور قدرتی و انسانی آفات کے باعث یہاں آبادی گھٹتی چلی گئی ۔1950ء میں تو یہاں صرف24000ماہی گیر باقی رہ گئے۔

مگر آج قطر کا شمار دنیا کے امیر ترین ممالک میں ہوتا ہے۔اندھیروں سے اجالوں کا یہ سفر کیسے طے ہوا؟عقل والوں کے لئے اس میں کئی نشانیاں ہیں ۔یقینا اس ترقی و خوشحالی میں ’’کالے سونے‘‘یعنی تیل اور گیس کی دریافت نے بھی کلیدی کردار ادا کیا مگر محض قدرتی وسائل کی تاویل پیش کرکے پہلو تہی نہیں کی جاسکتی۔

اس فٹبال ورلڈ کپ کا ایک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ دوحہ میں دنیا بھر سے آئی ٹیمیں کھیل کے جن میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں گی ،وہ اسٹیڈیم پاکستانی مزدروں نے تعمیر کئے ہیں ۔اس ایونٹ کے دوران سیکورٹی کے فرائض افواج پاکستان کے دستے نے سنبھال رکھے ہوں گے مگر کھیلوں کے اس مقابلے میں ہماری ٹیم کہیں دکھائی نہیں دے گی۔فٹبال ورلڈ کپ کےلئے فٹبال تو پہلے بھی سیالکوٹ سے بن کر جاتی رہی ہے اور اس بار بھی AL RIHLAنامی فٹبال پاکستان سے منگوایا گیا ہے۔

مگر اس بار پاکستانیوں کا خون اور پسینہ اس فٹبال ورلڈ کپ میں شامل ہے۔2010ء میں قطر نے فیفا ایگزیکٹو ارکان کے درمیان ہونے والی بیلٹنگ جیت کر اس ورلڈ کپ کی میزبانی کے حقوق حاصل کئے تو اس ایونٹ کےلئے انفراسٹرکچر کھڑا کرنے کا کام شروع ہوگیا۔

فٹبال ورلڈ کپ کےلیے 8نئے اسٹیدیم تعمیر کئے گئے،ہوٹل بنائے گئے اور میٹرو کا نظام کھڑا کیا گیا۔قطر حکومت نے دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کیلئے 8اسٹیڈیمزکس طرح جدید طرز پر تعمیر کئے ہیں ،آپ پڑھیں گے تو حیران رہ جائیں گے۔مثال کے طور پرایک اسٹیڈیم جو974کنٹینرز پر مشتمل ہے ، اس میں ورلڈ کپ کے سات میچز کھیلے جائیں گے، ایک اور انوکھی بات یہ ہے کہ یہ اسٹیڈیم عارضی ہے یعنی کہ فٹبال ورلڈ کپ کے بعداسٹیڈیم میں استعمال ہونے والے شپنگ کنٹینرز اور سیٹیں ختم کردی جائیں گی۔اس تعمیراتی کام میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی مزدوروں نے بنیادی کردار ادا کیا اور گزشتہ 12سال کے دوران تعمیراتی کام کے دوران پیش آنے والے حادثات کے باعث 800سے زائد پاکستانی مزدور زندگی کی بازی ہار گئے ۔

اسی طرح موجودہ فٹبال ورلڈ کپ کے دوران سیکورٹی کی ذمہ داری افواج پاکستان کو دی گئی ہے۔اس حوالے سے نہ صرف بری فوج کے 4500جوانوں پر مشتمل دستہ قطر بھجوایا گیا ہے بلکہ پاکستان بحریہ بھی اس حوالے سے فعال کردار اداکر رہی ہے۔

فٹبال ورلڈ کپ میں دنیا بھر کی 32ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں ۔شاید بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہوکہ قیام پاکستان کے بعد جب فٹبال فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے پہلے پیٹرن انچیف قائداعظم محمد علی جناح تھے ۔پاکستانی فٹبال ٹیم نے اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ 1950ء میں کیا اور پھر کولمبو کپ میں شرکت کی۔غالباً بعد ازاں پاکستان نے کولمبو کپ کی میزبانی بھی کی ۔اگرچہ پاکستان کبھی فٹبال ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی نہیں کرسکا تاہم سقوط ڈھاکہ سے پہلے پاکستان فٹبال ٹیم کا شمار اچھی ٹیموں میں ہوا کرتا تھا۔1989ء میں پاکستان نے پہلی بارفٹبال ورلڈ کپ میں شریک ہونے کی کوشش کی مگر ہماری ٹیم کوالیفائنگ رائونڈ میں کوئی ایک میچ بھی نہ جیت سکی۔

 اگر فیفا کی رینکنگ دیکھی جائے تو پاکستان اس درجہ بندی میں سب سے اچھی پوزیشن پر 1994ء میں تھا جب 211ممالک کی فہرست میں اسے 143ویں نمبر پر رکھا گیامگر اب پاکستان فٹبال کی رینکنگ میں 194ویں نمبر پر ہے۔ہاں البتہ روایتی سوچ کا انداز اپنایا جائے تو دل کو تسلی دینے کے لئے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان فٹبال ورلڈ کپ کے لئے کوالیفائی نہیں کرسکا تو کیا ہوا،بھارتی فٹبال ٹیم بھی کبھی یہ مرحلہ شوق طے نہیں کرپائی۔اگر ہم 194ویں نمبر پر ہیں تو کیا ہوا ،بھارت بھی تو 106نمبر پر ہے۔

جب دنیا ترقی و خوشحالی کی منازل طے کر رہی ہے تو ہم اس فکر میں غلطاں ہیں کہ عساکر پاکستان کا نیا سپہ سالار کون ہوگا۔آرمی چیف کی تعیناتی جیسے اہم ترین معاملات سے فرصت ملے تو ان سوالات پر غور کریں کہ ماہی گیروں کی بستی سے دنیا کے امیر ترین ملک کا سفر کیسے طے ہوا؟ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم کہاں (کھڑے نہیںبلکہ)پڑے ہیں؟ پاکستان فٹبال ٹیم کو اس حال تک پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟ہم نے تو ایک کھلاڑی کو وزیراعظم بنا کر دیکھ لیا مگر پھر بھی حالات و واقعات میں کسی قسم کی بہتری نہیں آئی۔ کہیںایسا تو نہیں کہ ہمارے ہاں سیاست کو کھیل سمجھا جاتا ہے اور کھیل میں سیاست کی جاتی ہے اور اسی کھلواڑ کے باعث نہ تو تعمیری سیاست ہورہی ہے اور نہ ہی کھیل کے میدان میں کوئی مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ذرا سوچئے، کیونکہ اس میں عقل والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔