فیکٹ چیک: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال پرکرپشن کے الزامات بے بنیاد ہیں،عدالتی فیصلہ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احسن اقبال کو بری کر دیاتھا، کیونکہ قومی احتساب بیورو (نیب)ان کے خلاف کسی قسم کی بدعنوانی یا اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات کو ثابت نہیں کر سکا۔

23 دسمبر 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال کو قومی احتساب بیورو نے پنجاب کے شہر نارووال میں اسپورٹس کمپلیکس سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد مختلف سیاستدانوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سےیہ الزام لگایا گیا کہ ان کی کرپشن کی وجہ سے اس منصوبے پر عملدرآمد میں سرکاری خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے عدالتی حکم نامے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ احسن اقبال پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی تھے۔

دعویٰ

دسمبر 2019  میں سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما فیاض الحسن چوہان نے ”اب تک“ٹیلی ویژن کے ایک نیوز پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھاکہ احسن اقبال، نارووال اسپورٹس سٹی کے نام پر ’’میگا کرپشن‘‘ میں ملوث ہیں۔

انہوں نے پروگرام میں بات کرتے ہوئےمیزبان سے کہا کہ ”اب آپ کے سامنے ہے کہ تین ارب کی مالیت کا جناب یہ کمپلیکس ہے، نارووال اسپورٹس کمپلیکس، اُس کے اوپر ٹھیکے ہیں، دو نمبر طریقوں سے ٹھیکوں کی ایلوکیشن ہے۔“

پاکستان تحریک انصاف کے ایک اور سینئر رہنما شہبازگل نے جولائی 2019 میں ٹوئٹ کیا کہ نارووال کرپشن کیس کی وجہ سے احسن اقبال جلد ہی اپنی سیاسی جماعت کی قیادت کے ساتھ جیل میں ہوں گے۔

شہبازگل نےاپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ”احسن اقبال غم نہ کریں؛ نارووال کرپشن کیس کی بدولت جلد اپنی لیڈرشپ کے ساتھ ہوں گے جس جس نے رج کے کرپشن کی آج کل زور وشور سے جمہوریت کا راگ الاپ رہا ہے ۔“

اس کے علاوہ سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے بھی دسمبر 2019 میں ایک ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے احسن اقبال پر مسلم لیگ (ن) کے پارٹی سربراہ، نواز شریف سےبھی ”بڑا ڈاکو“ ہونے کا الزام لگایا۔


اپنی اس ٹوئٹ میں فیصل واوڈا نے یہ دعویٰ کیا کہ ” اس [احسن اقبال]کی فرنٹ کمپنی اور رشتہ داروں کی فہرست جلد سامنے لاؤنگا۔ ان کی لوٹ مار نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ ایسے لوگوں کو کم از کم 3 دن لٹکانا چاہئے۔“

حقیقت

21 ستمبر 2022کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احسن اقبال کو نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں بری کر دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کردہ فیصلے میں کہا گیا کہ نیب کا ادارہ یہ ثابت نہیں کرسکاکہ درخواست گزار احسن اقبال نے نارووال پراجیکٹ سے ذاتی طور پر فائدہ اٹھایا ہے، یا کسی قسم کی کوئی کرپشن کی ہے۔

عدالت نےاپنے فیصلے میں لکھا کہ ”اختیارات کے غلط استعمال کا الزام بھی بغیر کسی بنیاد کے ہے،ہم نے بارہا اسپیشل پراسیکیوٹر اورنیب کے تفتیشی افسر سے یہ کہاہےکہ وہ یہ ثابت کریں کہ درخواست گزار نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے یا وہ بدعنوانی یا کرپٹ طرز عمل میں ملوث ہو ئے ہیں _وہ [اسپیشل پراسیکیوٹر اورنیب کے تفتیشی افسر] ہمیں مطمئن نہیں کر سکے۔“

نیشنل اسپورٹس سٹی کمپلیکس کو حکومت کے زیر انتظام سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) نے پہلے 1999 میں اور پھر 2008 میں منظور کیا ، جبکہ اس کی تعمیر 2009  میں شروع ہوئی۔

نیب نے احسن اقبال پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اپنے عوامی عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے حلقوں کو فائدہ پہنچانے کے لیےاس منصوبے کی منظوری دی اور اس کی تکمیل کے لیے بھاری رقم مختص کی۔

لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے 9 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں لکھاہےکہ قومی احتساب بیورو کے تفتیشی افسر سے سنٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی کی تشکیل اور کام کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی وضاحت طلب کی گئی کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرامز میں پراجیکٹس کو کیسے شامل کیا گیا۔

اس حوالے سے عدالت کا مزید کہنا تھا کہ افسوس کہ وہ[تفتیشی افسر ] توسنٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی کی تشکیل اور کاموں سے بھی واقف نہیں تھا ، اورنہ ہی اسے اس طریقہ کار سے،جس پر منصوبوں کو زیرِغور لاکر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرامزمیں شامل کیا گیا۔“

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ،جسٹس اطہر من اللہ نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ”یہ ستم ظریفی ہےکہ احسن اقبال پر ایسے وقت میں الزامات لگائے گئے، جب وہ اپوزیشن بنچ پر تھے۔“

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ ”اس منصوبے [نارووال اسپورٹس سٹی] کو یقینی طور پر عوام کے فائدے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔“

اس عدالتی حکم میں مزید کہا گیا کہ نیب کی جانب سے احسن اقبال کے خلاف ریفرنس اور کارروائی ”قانونی اختیار کے بغیر“ تھی۔

احسن اقبال نے دسمبر 2019 سے فروری 2020  تک، دو ماہ کی قید بھی کاٹی۔

ہمیں @GeoFactCheck  پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔