28 نومبر ، 2022
عمران خان بڑے دھوم دھڑکے سے جنگی ترانے بجاتے ہوئے شہباز شریف کی حکومت گرانے پنڈی آئے تھے۔ خیال تھا کہ وہ لاکھوں کے مجمعے کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھ دوڑیں گے لیکن شہباز شریف کی حکومت گرانے کی بجائے اپنی دو صوبائی حکومتیں گرانے کا اعلان کرکے واپس چلے گئے۔
کیاخان صاحب کا کھیل ختم ہو چکا؟ یہ کھیل اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے ایک سال قبل بطور وزیر اعظم اپنی مرضی کا آرمی چیف مقرر کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی۔ اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے کی کوشش کے پیچھے کئی وجوہات تھیں جن میں سے ایک یہ بھی تھی کہ خان صاحب فوج کو اپنے سیاسی مخالفین اور ناقد صحافیوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی ان کی فرمائش پوری کردی جاتی توکبھی ان سے معذرت کرلی جاتی۔
اس ناچیز کو ان کی فرمائشوں کا پتہ اس وقت چلا جب 2019ء میں مجھے آصف علی زرداری کا ایک انٹرویو کرنے کا موقع ملا لیکن اس انٹرویو کو جیو نیوز پر نشر ہونے سے رکوا دیاگیا۔ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے یہ انٹرویو رکوانے کے لئے کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ میں نے پتہ کیا تو بتایا گیا کہ یہ پابندی دراصل خان صاحب کا ’’فیض‘‘ ہے۔ خان صاحب کا ’’فیض ‘‘ بعد میں بھی جاری رہا۔ گزشتہ سال مجھ پر نو ماہ تک پابندی رہی۔ ٹی وی اسکرین سے لاپتہ کرنے کے علاوہ یہ کالم بھی بند کرا دیاگیا اور مجھے براہ راست بتایا گیا کہ یہ سب خان صاحب کا ’’فیض‘‘ تھا۔ یہ ’’فیض‘‘ اتنا عام ہوگیا کہ خان صاحب کے ناقدین اس شعر کی مثال بن گئے ۔
مقام ’’فیض‘‘ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوائے دار چلے
خان صاحب اپنے اکثر سیاسی و صحافتی ناقدین کو سُوئے دار پہنچانا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھرپور فرمائشیں شروع کردیں۔ باجوہ صاحب کو بھی سمجھ آ چکی تھی کہ خان صاحب اپنے ناقدین کو فوج کے ہاتھوں رسوا کرکے فوج کو بدنام کرائیں گے اور خود ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر پارسا بنے رہیں گے۔ خود مجھے بھی خان صاحب کی کابینہ کے وزرا سرگوشیوں میں یہی کہتے کہ آپ پر پابندی تو باجوہ صاحب نے لگوائی ہے لیکن باجوہ صاحب بند کمروں میں ان باتوں کی تردید کرتے۔
پھر ایک دن میرے چودہ طبق روشن کردیئے گئے۔ مجھے سامنے بٹھا کر کہا گیا کہ خان صاحب کے ’’فیض‘‘ سے پاکستان میں سب کچھ بدلنے والا ہے۔ اپریل 2022ء سے پہلے پہلے نیا آرمی چیف آئے گا، پھر قبل از وقت انتخابات ہوں گے، خان صاحب کو دو تہائی اکثریت ملے گی اور پھر پارلیمینٹ سے آئینی ترامیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیا جائے گا۔
یہ کم از کم دس سال تک حکومت کرنے کا منصوبہ تھا جس کے تحت صرف فوج نہیں بلکہ عدلیہ اور میڈیا پر بھی مکمل کنٹرول قائم کرنا تھا جس کی جھلک ہمیں پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مجوزہ بل میں نظر آگئی جس کے تحت میڈیا کورٹس سے صحافیوں کو دھڑا دھڑ سزائیں دی جانی تھیں۔ جنرل باجوہ کو اپنے لاڈلے کے عزائم کا پتہ چلا تو وہ نیوٹرل ہوگئے لیکن پھر ان کے لاڈلے نے نیوٹرل کے لفظ کو ایک گالی بنا دیا۔ اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ جنرل باجوہ اگرنیوٹرل نہ ہوتے تو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادکامیاب نہ ہوتی لیکن خان صاحب بھول گئے کہ باجوہ ان کے محسن تھے۔ انہوں نے پہلے تو تحریک عدم اعتماد کو ایک غیر ملکی سازش قرار دیا اور پھر جنرل باجوہ کو میر جعفر قرار دینا شروع کردیا۔
جب نئے آرمی چیف کی تقرری قریب آئی تو خان صاحب نے اس معاملے کو سیاسی جلسوں کا موضوع بنا دیا اور اعلان کیا کہ وہ چوروں کو نیا آرمی چیف تعینات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔خان صاحب نے نئے آرمی چیف کی تقرری کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی یہاں تک کہ باجوہ صاحب کو چند ماہ کی مزید توسیع دینے پر بھی رضا مندی ظاہر کی لیکن ناکام ہوگئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے فوج کےسینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف بنا کر ایک ایسا قدم اٹھایا کہ خان صاحب بھی ’’چوروں‘‘ کے مقرر کردہ آرمی چیف کو مبارک دینے پر مجبور ہوگئے۔
ایک طویل عرصے کے بعد سینئر ترین جرنیل کو آرمی چیف مقرر کرنے کی روایت قائم کی گئی ہے، یہ روایت آئندہ بھی قائم رہنی چاہیے اور فوجی سربراہوں کی مدت ملازمت میں توسیع پر پابندی عائد کرنے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جانی چاہیے تاکہ آرمی چیف کے عہدے کو سیاست زدہ ہونے سے بچایا جائے۔ سب جانتے ہیں کہ خان صاحب نے جنرل عاصم منیر کی تقرری کو بادل نخواستہ قبول کیا ہے کیونکہ انہوں نے ایک سال قبل جسے اس عہدے سے فیض یاب کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس کی تمام چالیں الٹی پڑ گئیں۔
خان صاحب نہ تو قبل از وقت انتخابات کرا سکے، نہ نئے آرمی چیف کی تقرری رکوا سکے اور نہ ہی اپنے لانگ مارچ کو کامیاب بنا سکے۔ ان کا اصل منصوبہ یہ تھا کہ آرمی چیف کی تقرری کو ملتوی کروا کر وہ 26 نومبر کو اسلام آباد پر چڑھائی کردیں گے لیکن نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد پوری تحریک انصاف صدمے میں چلی گئی۔شاید اسی صدمے کے باعث 26 نومبر کو راولپنڈی میں کوئی بڑا مجمع اکٹھا نہ کیا جاسکا۔
لہٰذا خان صاحب نے اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں سے باہر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ ایک اچھی سیاسی چال ہے۔ خان صاحب کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے پاس ووٹ پاور تو موجود ہے لیکن سٹریٹ پاور نہیں ہے لہٰذا ملک میں نئے انتخابات کا ماحول بنانے کے لئے انہوں نے صوبائی اسمبلیوں سے باہر آنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی طرف سے تو انہوں نے ایجی ٹیشن کا کھیل ختم کرکے سیاسی چالوں کا نیا کھیل شروع کیا ہےلیکن ایک غلطی ہوگئی۔ راولپنڈی میں خان صاحب کی تقریر سے قبل اعظم سواتی سے تقریر کرائی گئی۔
سواتی نے اس تقریر سے قبل سوشل میڈیا پر ایک حاضر سروس فوجی افسر کو گالی دی تھی اور تقریر میں جنرل باجوہ کے اثاثوں پر سوال اٹھایا تھا۔ جنرل باجوہ 29 نومبر کو رخصت ہو رہے ہیں لیکن 27 نومبر کو اعظم سواتی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اب اعظم سواتی کو اس ویڈیو کا ثبوت دینا پڑے گا جس کی وجہ سے ایک تنازع کھڑا ہوا۔
باجوہ صاحب کی رخصتی کے بعد خان صاحب کو جلد احساس ہوگا کہ باجوہ تمام تر شکوے شکایتوں کے باوجود ان کے لئے ایک سایہ تھے جس نے انہیں دھوپ کی تمازت سے بچائے رکھا۔ عمران خان کا کھیل ابھی ختم نہیں ہوا۔ جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے ساتھ ایک نیا کھیل شروع ہوگا۔ باجوہ صاحب سے اثاثوں کا حساب مانگنے والوں کو اب اپنا حساب دینا ہوگا اور یہ حساب کتاب مکمل ہونے کے بعد ہی نئے انتخابات ہوں گے لیکن شاید ہم خان صاحب کے ’’فیض‘‘ سے محروم رہیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔