30 نومبر ، 2022
کاش جو بات جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتہ پہلے کی وہ چھ سال پہلے کہتے اور پھر ثابت کرتے کہ’ ’فوج تو غیر سیاسی ہوتی ہے‘‘ تو وہ پوری قوم کی ترجمانی ہوتی۔ اتنی سی تو بات ہے جس کو کہنے میں سات دہائیاں گزر گئیں۔ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ،جنہوں نے کل ہی ’’چھڑی‘ ‘تھامی ہےبہت اہم ذمہ داری اور چیلنجز کا سامنا ہے ،جس کی بنیادی بات یہی ہے کہ ہماری مسلح افواج ’’سیاست سے دور رہے‘‘ اور ہمارا فخر رہے جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرکے۔
جن حالات میں جنرل باجوہ رخصت ہوئے وہ قابل فخر نہیں ہیں خاص طور پر سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت کے حوالے سے۔ تاریخی طور پر یہ بات ثابت ہے کہ جو بنیادی غلطی پہلا مارشل لا لگاکر 1958ء میں کی گئی اسے پھر عادت بنالیا گیا۔ اب غلطیوں کی گنجائش نہیں، بہت کچھ گنوا دیا گیا ہے اب تو ریاست کے چاروں ستون کمزور ہوگئے ہیں، عمارت کیسے مضبوط رہ سکتی ہے جو ایٹم بم اپنی حفاظت کے لئے بنایا آج اس کی حفاظت کررہے ہیں۔
باجوہ صاحب کی تقریر پر بات سے پہلے سابق وزیراعظم عمران کی جانب سے ’لانگ مارچ‘ کا راولپنڈی میں اختتام اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اب اپنی سیاست کا رخ واقعی سیاست کی طرف موڑ رہے ہیں۔ اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ انہوں نے ایک ہفتہ پہلے کرلیا تھا جس کے بعد ہی یہ طے ہوا کہ برطانیہ کی کرکٹ ٹیم اپنا پہلا ٹیسٹ پنڈی میں ہی کھیلے گی اور برطانیہ کے ہائی کمشنر کو یقین دہانی کرادی گئی۔
اب خان صاحب کوفیصلہ کرنا ہے کہ کب پنجاب اور کے پی اسمبلیاں توڑنی ہیں۔ کمال ہےکہ پہلے پی ڈی ایم کا مطالبہ تھا کہ اگر عمران ملک میں عام انتخابات چاہتے ہیں تو یہ حکومتیں اور اسمبلیاں ختم کریں اب جب خواہش کا اظہار ہوگیا تو مرکز انہیں بچانے میں لگاہوا ہے۔ بہرحال دونوں کو ہی اپنی ناقص سیاسی حکمت عملی پر غور کی ضرورت ہے۔
جنرل باجوہ نے اپنی ایک’ ’غیر سیاسی‘‘ تقریر میں کئی سیاسی باتیں کیں جن کا تعلق صرف موجودہ حالات سے نہیں تاریخ سے بھی ہے مثلاً سقوط ڈھاکہ فوجی نہیں سیاسی غلطی تھی۔ سیاست میں غیر آئینی مداخلت پر فوج پر تنقید ہوتی ہے اور اہم بات کہ فروری میں فوج نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اب’ ’سیاست میں مداخلت نہیں کرنی۔‘‘ اب وہ خود ان ساری باتوں کا جائزہ لیں تو سانحہ مشرقی پاکستان کا جواب مل جائے گا۔ البتہ سیاست میں عدم مداخلت سے سیاسی یتیموں میں بے روزگاری بڑھ جائے گی۔
جنرل باجوہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں آر ٹی ایس کی آڑ میں جیتی ہوئی جماعت کو ’سلیکٹڈ‘ اور 2022ء میں اعتماد کھونے پر نئی حکومت کو ’امپورٹڈ‘ کہا گیا اور ساتھ ہی انہوں نے مشورہ دیا کہ سیاسی جماعتیں ہار جیت قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ اب جنرل صاحب آپ نے خود ہی کہا کہ فوج نے فروری 2021 میں یہ فیصلہ کیا کہ سیاست میں مداخلت نہیں ہوگی۔ یہ دونوں باتیں کرکے انہوں نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ نہ کسی کو ’سلیکٹڈ‘ کروانے میں اداروں کا ہاتھ ہے نہ کسی کو اعتماد کی آڑ میں امپورٹڈ بنانے میں مگر انتہائی معذرت کے ساتھ یہ دونوں باتیں اس لئے ہوتی ہیں کہ اس کے کردار مشترکہ ہیں۔
2018ء کے الیکشن سے پہلے بلوچستان میں کیا کھیل کھیلا گیا۔؟ راتوں رات مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرواکے ایک نئی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کھڑی کردی گئی جو آگے جاکر عمران خان کی اتحادی بنی۔ اب 2018ء سے جنوری 2022ء تک تو ’سب اچھا‘ تھا۔ کہاں کہاں مدد نہیں کی ورنہ شاید میرا دوست حاصل بزنجو مرحوم چیئرمین سینیٹ بن جاتا۔ پھر کراچی میں 2018ء کے الیکشن میں کیا نہیں ہوا۔
رہ گئی بات سیاست میں غیرآئینی مداخلت کی تو اگر یہ نہ ہوتی تو سانحہ مشرقی پاکستان نہ ہوتا جس کی بنیاد تو 1948ء میں پڑگئی تھی، پھر رہی سہی کسر دو یونٹ بناکر اور جگتو فرنٹ کی حکومت کو ختم کرکے پوری کردی گئی، اگر مارشل لا نہ لگتا تو آج جمہوریت مضبوط اور نظریہ ضرورت جنم ہی نہ لیتا شاید محترمہ فاطمہ جناح سیاست سے کنارہ کش نہ ہوتیں۔ مگر ایوب کے بعد جنرل یحییٰ کا مارشل لا لگا۔ آپ کڑیاں جوڑتے چلےجائیں واقعات کا جواب مل جائے گا۔
آگے بڑھنے کیلئے 75سال کا غیر جانبدارانہ جائزہ بہت ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہو ایک ’سچائی کمیشن‘ تشکیل دیا جائے جہاں ریاست کے چاروں ستونوں کے کردار کا جائزہ لیا جائے۔ ان ستونوں کے جن جن کرداروں میں ’اعتراف‘ کی جرات ہے وہ اپنی اور ادارے کی غلطیوں کا اعتراف کریں۔ آگے کی راہیں اسی طرح کھل سکتی ہیں۔
اس ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو شاید آج آئین کی حکمرانی بھی ہوتی اور کوئی ایک مارشل لا بھی لگانے کی کسی کو جرات نہ ہوتی۔ ہم نے آزاد عدلیہ کیلئے تحریک میں حصہ لیا آج ہم آزاد عدلیہ کو آزاد کرارہے ہیں۔ بہتر ہے سیاسی مقدمات کیلئے’آئینی کورٹ‘ تشکیل دی جائے۔ حسرت رہ گئی اچھے فیصلے پڑھنے کی ،ججز ریمارکس سے نہیں فیصلوں سے بولیں۔
تیسری اور اصل برائی کی جڑ سیاسی اور کرپٹ ترین بیوروکریسی ہے یہ پوری مافیا ہے جو اب سیاست زدہ بھی ہوگئی ہے۔ یہ لوگ ہر دور کے لحاظ سے حکمراں کے موڈ اور مزاج کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں پھر آنے والے کا انتظار کرتے ہیں۔سیاست دانوں نے اگر ذمہ داری پوری کی ہوتی اور آمر کے سامنے کلمہ حق ادا کیا ہوتا تو شاید یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ صحافت جو ریاست کا اہم ستون ہے،جسےمعاشرےکا عکس اور آئینہ ہونا چاہئے وہ آج کل آئینہ کے سامنے خود ہی شرمندہ ہورہا اپنا عکس دیکھ کر۔
جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب رخصت ہوئے۔ یہاں صرف مارشل لا ادوار کو ہی توسیع نہیں دی جاتی لہٰذا یہ سلسلہ بھی اب ختم ہونا چاہئے۔ تصور کریں ہمارے کتنے چیف گزرے ہوتے اگر 11سال، 10سال یا 9سال آمریت نہ ہوتی، اب یہ تین تین سال کی توسیع خود ادارے کیلئے شاید درست نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔