10 دسمبر ، 2022
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کا کہنا ہےکہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کہتے تھے اگلی باری ن لیگ کی آرہی ہے، ان کو این آر او ون مشرف نے دیا تھا اور این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا۔
نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ رانا ثنااللہ کی باتوں کوکبھی سنجیدہ نہیں لیا، دسمبرمیں اسمبلیاں تحلیل کردیں گے، معیشت اوپر اٹھانی ہے تو سیاسی استحکام ہونا چاہیے جس کے لیے انتخابات ضروری ہیں، یہ دس ماہ بعد الیکشن کرائیں یا ایک سال بعد کرائیں، یہ ہار جائیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ پرویزالہٰی کا خیال ہےکہ حکومت تھوڑی اور چلنی چاہیے، پرویز الہٰی نے کہا ہے حکومت ختم کرنے کے حوالے سے جیسا میں کہوں گا ویسا وہ کریں گے، پرویز الہٰی نے دوبارہ وزیراعلیٰ بنانےکا کوئی مطالبہ نہیں رکھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ جویہ 7 ماہ میں ہوا اس میں جنرل (ر) باجوہ کی پالیسیاں رہیں، جنرل (ر) باجوہ نے کہا تھا کہ عثمان بزدارکو ہٹائیں، وہ علیم خان کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانےکا کہتے تھے، ان کا بزدار کو ہٹانےکا مطالبہ عجیب تھا، علیم خان کا نام لیا گیا توپرویز الہٰی نےکہا کہ وہ اسے سپورٹ نہیں کریں گے، میں نےکہاعلیم خان پر بڑے الزامات ہیں اسے وزیراعلیٰ نہیں بناسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ حکومت تبدیل کرنے میں ملوث تھے وہ سب میر جعفر اور میرصادق ہیں، ہماری جب حکومت گئی توسب نے سوچا اب لوگ مٹھائیاں بانٹیں گے، انہوں نے سوچا کہ حکومت ختم ہونے کے بعد میری سیاست ختم ہوگئی، جنرل (ر) باجوہ کہتے تھے پی ٹی آئی سے کوئی ٹکٹ نہیں لےگا اور اگلی باری ن لیگ کی آرہی ہے۔
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان کی سب سے بڑی کوشش ہےکہ مجھے نااہل کرایا جائے، نواز شریف کی کوشش ہےکہ ان پرکیسز ختم ہوجائیں اور مجھے نااہل کیا جائے، ان کو این آر او ون مشرف نے دیا اور این آر او ٹو جنرل باجوہ نے دیا، جب تک کیسز ختم نہیں ہوں گے نواز شریف واپس نہیں آئیں گے، اگر نواز شریف پنجاب میں آئے تو انہیں گرفتار کیا جائےگا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جو لوگ لوٹے ہوئے،جنہوں نے غداری کی عوام نے ان کو الیکشن میں سزا دی، جنرل (ر) باجوہ شہبازشریف کو جینیئس سمجھتے تھے، نیب جنرل (ر) باجوہ کے نیچےتھی اور ان کے کنٹرول میں تھی اس لیے وہ فیصلہ کرتے تھےکس کو اندر جانا ہے کس کو باہر، نیب کے ذریعے کسی کو اندر کرنا یا باہر نکالنا ہمارے ہاتھ میں نہیں تھا، ہمارے پاس اختیار نہیں تھا جن کو اختیار تھا انہوں نے ان کو ریلیف دیا، ہمیں کہا جاتا تھا آپ معیشت دیکھیں احتساب کو چھوڑ دیں۔