بلاگ
Time 20 دسمبر ، 2022

عمران خان، پارلیمان اور ہیجان

عمران خان صاحب کی سیاست کچھ ایسے کیمیائی اور طبیعاتی عناصر کا مرکب ہے جو ہماری نہایت ہی مشّاق سیاسی تجربہ گاہ کے لئے بھی عجوبے سے کم نہیں۔

ہر آن ہنگامہ وپیکار بپا کرنے اور پیہم کوچہ وبازار کو بازی گاہ بنائے رکھنے والی ’پارلیمان بیزار‘ سیاست اُن کے رگ وپے میں رچی بسی ہے۔ عمران خان کی افتادِ طبع میں ’’یا اپنا گریباں چاک، یا دامنِ یزداں چاک‘‘کا ایک ایسا خودکار میکانکی نظام کارفرما ہے جو ٹھہرائو کے ایک خاص درجہ سکون تک پہنچتے ہی متحرک ہوجاتا ہےاور اُن کے لہو کو گرم رکھنے کا کوئی بہانہ دے جاتا ہے۔

 خان صاحب کے بقول تقریباً پونے چار برس کی حکمرانی، اُن کی چھبیس سالہ طویل اور صبرآزما جدوجہد کا ثمرتھی، تاریخ اِس کی تائید نہیں کرتی۔ اُن کی چھبیس سالہ سیاست میں ہمیں طوالت تو نظرآتی ہے لیکن صبرآزمائی اور جُہدِ مسلسل نام کی کوئی شے نہیں ملتی۔ اپریل 1996میں انہوں نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ اگلے ہی برس 1997میں انتخابات کا نقارہ بجا۔ عمران خان اکھاڑے میں اترے۔ خود بھی ہار گئے اور پارٹی کے تمام نامزد امیدوار بھی۔ پہلا ہی تجربہ منہ کا ذائقہ خراب کرگیا۔ پارٹی کی عمر صرف تین سال تھی جب 1999ءمیں خان صاحب کا پالا پہلے بڑے امتحان سے پڑا۔ جنرل پرویزمشرف نے آئین توڑ ا، حکومت کا تختہ اُلٹا اور اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

عمران خان نے آؤدیکھا نہ تائو ، اپنی نوزائیدہ انقلابی جماعت کا توشہ خانہ اٹھایا اور آئین شکن آمر کے پلڑے میں ڈال دیا۔ یہ اُن کی ’’طویل اور صبرآزما‘‘ جدوجہد کا پہلا سنگِ میل تھا۔ عمران خان کم وبیش تین سال دربارِ آمریت کے قوّالوں میں شامل رہے۔ اُن کے دِل میں ’’قانون وانصاف کی عملداری‘‘ کے احساس نے تب بھی انگڑائی نہ لی جب مشرف نے چیف جسٹس سمیت متعدد ججوں کو فارغ کرکے خانہ ساز عدلیہ تشکیل دی، َمن پسند فیصلے لئے، آئین کی چیر پھاڑ کرتے ہوئے جمہوری پارلیمانی نظام کے بخیے اُدھیڑ ے، مخالفین کو زِندانوں اور قلعوں کے تہہ خانوں میں ڈالا، سیاسی جماعتوں کو نیب کے عقوبت خانوں کی نذر کیا اور سیاسی حواریوں کا ایک طائفہ تراشا۔ جمہوری تاخت وتاراج کے اِس سارے عہدِ نامُراد میں پرویز مشرف کی بلائیں لیتے ہوئے عمران خان کی پیشانی پر عرقِ ندامت کی نمی تک نہ آئی۔ وہ حریصانہ اور والہانہ خودسپردگی کے ساتھ مشرف کے کانوں میں رَس گھولتے اور اپنی کِشتِ آرزو کو آمریت نوازی کے آبِ زر سے سینچتے رہے۔

2002 ءمیں، ریفرنڈم کی َمشقِ ملامت ایوب خان اور ضیاء الحق سے ہوتی ہوئی مشرف تک پہنچی تو وہ بے حجاب ہی نہیں، مکمل طور پر بے لباس بھی ہوچکی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کا نہایت ہی مضحکہ خیز اور حیا باختہ تماشا تھا۔ اِس تماشے کے سرخیلوں میں دو کردار سب سے نمایاں تھے۔ ایک حضرت علامہ طاہرالقادری، اور دوسرے عمران خان۔ دونوں کے دِل میں دَرجاتِ بلند کا جوالا مکھی دہک رہا تھا۔ دونوں انتخابی ناکامی کے تلخ تجربے سے گزر چکے تھے۔ اِس ’’صبرآزما اور طویل جدوجہد‘‘ کا ثمر یہ ملا کہ دونوں قومی اسمبلی کے ایوان میں داخل ہوگئے۔

یہاں سے خان صاحب کی پارلیمانی زندگی کا آغاز ہوا۔ اسمبلی میں نووارد ہونے کے باوجود وہ کوئی نوخیز نہ تھے۔ پچاس برس کی عمرکو پہنچ چکے تھے۔ چھ برس سے جماعت کی قیادت کررہے تھے۔ اپنی سیاسی زنبیل میں دعوؤں، وعدوں، نعروں، نظریوں اور اصولوں کا اچھا خاصا اثاثہ اٹھائے پھرتے تھے۔ سیاست کا کوئی طالب علم چاہے تو میں پارلیمنٹ ہاؤس کی لائبریریوں اور ریکارڈ تک رسائی میں اُس کی مدد کرسکتا ہوں۔ وہ ساری دستاویزات کھنگال کر دیکھے کہ 2002سے 2007تک خان صاحب، کتنی بار ایوان میں آئے، کس کس قانون سازی میں حصہ لیا، اہم قومی موضوعات کے مباحثوں میں کتنی بار شرکت کی، کتنی بار ایسی تقاریر کیں جو یادگار سمجھی جاتیں۔ کم لوگوں کو علم ہوگا کہ عمران خان کو قومی اسمبلی کی دونہایت اہم قائمہ کمیٹیوں کی رُکنیت سونپی گئی۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور کشمیر کمیٹی۔ دیکھنا چاہئے کہ خان صاحب کتنی بار پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں گئے؟ کس کے احتساب کے لئے کیا کردار ادا کیا؟ کرپشن کے سدِّباب کیلئے کتنی مؤثررہنمائی فرمائی؟ اور اِن اَرفع مقاصد کے لئے کتنے بِل پیش کئے؟ کشمیر کمیٹی کا احوال اس سے بھی گیاگزرا ہے۔ کم وبیش پانچ سال تک ایوان ہو یا قائمہ کمیٹی یا کوئی اور پارلیمانی وظیفہ، خان صاحب نے کسی کو پرِکاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی۔ یہ بے آب ورنگ سے خرخشے ان کی خوئے پیکار کو جچتے ہی نہ تھے۔ سو! 2002میں حلف اٹھانے اور 2007میں مستعفی ہوجانے کے درمیانی عرصے میں تنخواہوں اور مراعات کے حصول کے سوا اُن کا اور کوئی کردار نظر نہیں آیا۔ اُن کا کمالِ فن یہ ہے کہ اب تک وہ تین بار قومی اسمبلی کے رُکن چنے گئے، تینوں بار جلد یا بدیر مستعفی ہوکر سڑکوں اور چوراہوں میں آگئے۔

2008کے انتخابات میں انہوں نے حِصّہ ہی نہ لیا۔ بس یہ آس لگا کر بیٹھ گئے کہ کبھی تو کوئی گھٹا اُن کی کِشتِ وِیراں کا رُخ کرے گی۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک دن خان صاحب بنی گالہ کی پہاڑی چوٹی پر اپنے گھر کے کشادہ لان میں دھوپ سینک رہے تھے۔ موسموں کو اپنی مرضی کا پیرہن پہنانے اور خیابانِ سیاست میں مرضی کے لالہ وگل کھلانے والی چنچل ہوائیں پائلیں چھنکاتیں پہاڑی شادابیوں سے کھیل رہی تھیں کہ اُن کی نظر خان صاحب پر پڑی۔ یکایک دِل دے بیٹھیں۔ 2011کے لاہوری جلسے سے 2018میں ’آر۔ٹی۔ایس‘ کی مرگِ ناگہانی تک کی داستان، خان صاحب کی ’’صبرآزما جدوجہد‘‘ کی کہانی نہیں، اُنہی شوخ ہواؤں کی فتنہ سامانی تھی۔ نوازشریف سے بیر رکھنے والوں کا قبیلہ اُن ہواؤں میں خوشبوئیں بھرنے لگا۔ دانشوروں کی فریفتگی، کالم نگاروں کی شیفتگی اور اِبنائے وقت کی وارفتگی جذبِ فراواں سے چھلکنے لگی۔ عمران خان وزیراعظم بن گئے۔ پارلیمانی زبان میں اُنہیں قائدِایوان چُن لیاگیا۔

اپریل 2022ءمیں ایک جمہوری آئینی مشق کے ذریعے ایوان کی قیادت سے محروم ہونے اور وزارت عظمٰی سے فراغت کے بعد ان پر ’’ماہیِ بے آب‘‘ کی کیفیت طاری ہے۔ ایوان موجود ہے۔ پارلیمان کام کررہی ہے لیکن پارلیمانی کردار، اُن کے دَستور سیاست سے خارج ہے۔ سو! وہ لانگ مارچ، جلسوں، جلوسوں اور تقریروں سے ہوتے ہوئے خودشکنی کے ایک نئے سنگ میل تک آپہنچے ہیں۔

استاد ذوق نے کہا تھا

ہم سے بھی اس بساط میں کم ہوں گے بَدقمار

جو چال ہم چلے، سونہایت بُری چلے

مسئلہ صرف یہ ہے کہ عمران خان کا واحد مطلوب ومقصود وزارت عظمیٰ ہے، یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ اُن کا ہیجان پارلیمان کی چاردیواری میں سما ہی نہیں سکتا۔ آنے والے انتخابات میں وہ جیت گئے تو اسمبلیاں ایک بار پھر توڑنے کے لئے اپنی آستین سے کوئی نیا جادوئی کبوتر نکال لیں گے اور اگر ہار گئے تو یقیناً دھاندلی ہوگی کیوں کہ عمران خان کسی صورت ہار نہیں سکتے۔ یہ انہونی ہوگئی تو اُن کا ’’قافلہ سخت جاں‘‘ چھبیس سالہ ’’صبرآزما سیاسی جدوجہد‘‘ کے ایک نئے مرحلہِ شوق میں داخل ہوجائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔