بلاگ
Time 06 جنوری ، 2023

اعتماد کا ووٹ؟

فواد چوہدری نےکہا ہے کہ ’’جے آئی ٹی رپورٹ کے انکشافات نے ثابت کردیا ہے کہ عمران خان کوقتل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی‘‘ مگر الیکشن کمیشن کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آیاکہ عمران خان کو گولیاں لگی ہیں۔ وہ زخمی ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی کو ہر لمحہ خطرہ ہے۔ قاتل موقع کی تلاش میں ہیں۔

 عمران خان کی عدم پیشی پر برہمی کا اظہار حیرت انگیز ہے ۔اگلی سماعت پر عدم حاضری کے وارنٹ جاری کرنے کا فیصلہ بھی عجیب ہے۔ بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کی طرف سے میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کرانے کا بھی کہا ہے۔ اگلی پیشی پر پیش نہ ہونے کی صورت میں فواد چوہدری اور اسد عمر کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنےکا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ خیر یہ دو نوں شخصیات اگلی پیشی پر پیش ہو جائیں گی مگر ان ملزمان کے جرائم کیا ہیں۔

 کہتے ہیں کہ تینوں رہنماؤں نےمختلف جلسوں میں چیف الیکشن کمشنر پر الزامات عائد کئے ہیں جن سے الیکشن کمیشن کی توہین ہوئی ۔نامزد ملزمان کا کہناہےکہ انہوں نےالزامات فرد واحد پر لگائے ہیں، پورے ادارے پر نہیں جب کہ ان پرمقدمہ پورے ادارے کی توہین کرنے کا بنایا گیا ہے۔ ممکن ہے قانون کی کسی کتاب میں لکھا ہو کہ اصل میں چیف الیکشن کمشنر ہی الیکشن کمیشن ہے۔ ویسے آج کل عمران خان کی گرفتاری کے چرچے ہیں۔ میری اطلاع کے مطابق عمران خان کو خوفزدہ کیا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلی توڑی تو انہیں نااہل قرار دے کر گرفتار کرلیا جائے گا۔ ان کی جگہ پی ٹی آئی کی نئی لیڈر شپ سامنے لائی جائے گی ۔نئی لیڈر شپ کیلئے شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک کے نام لئے جا رہے ہیں۔

 ایسا لگتا ہے کچھ لوگوں کو یہ یاد نہیں کہ پاکستان میں عوام بھی رہتے ہیں۔ جن میں تقریباً ستر فیصد عمران خان کے ساتھ ہیں۔ عمران خان کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی کو نااہل قرار دے دیا جائے۔ پاکستان کودشمن تباہ نہیں کر سکے لیکن دیوالیہ ہونے کے خطرے نے یہ خدشہ ضرور پیدا کر دیا ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی ممکن نہیں۔ اوپر بیٹھے ہوئے اتنے سیدھے سادے بھی نہیں۔ یہ باتیں صرف عمران خان کو خوفزدہ کرنے کیلئے کی جا رہی ہیں مگر اس شخص کو جو بقول غالب (ذرا سی ترمیم کے ساتھ) ’’گولیاں کھاکے بےمزا نہ ہوا‘‘ وہ ان چھوٹی چھوٹی دھمکیوں سے کیسے ڈر سکتا ہے۔ ہاں احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ سو وہ کرلی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ عمران خان نے پاکستانیوں سےیہاں تک کہہ دیا ہے کہ کسی بھی ایسی صورت میں لوگ گھروں سے باہر نکل آئیں اور اس وقت تک باہر رہیں جب تک اہل ِ اقتدار ہوش میں نہیں آتے۔

شیخ رشید نے جیو پر گفتگو کرتے ہوئے قوم کو ایک اچھی خبریہ سنائی ہے کہ نئی فوجی قیادت آنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، کسی کو فون کالز نہیں آ رہیں۔ اپریل میں الیکشن کا شیڈول ملنے کا واضح امکان ہےاور اس الیکشن میں عمران خان کھمبے کو ٹکٹ دے گا تو وہ بھی جیت جائے گا۔ یقیناً جیسے ہی خیبر پختون خوا اور پنجاب اسمبلی ٹوٹے گی وفاقی حکومت الیکشن کاشیڈول دینے پر مجبورہو جائے گی۔ 

ذہنی طور پرنواز شریف انتخابات کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کارکنوں کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ پنجاب میں اعتماد کے ووٹ سے قبل اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کر دیں۔ گورنر ہاؤس اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس بھی پارٹی رہنماؤں کیلئے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ان مقامات پر عوام کے مسائل سنے جائیں گے اور ان کے حل کیلئے احکامات جاری کئے جائیں گے۔ خبر یہاں تک گرم ہے کہ پنجاب میں نون لیگ نے آئندہ عام انتخابات کیلئے عوامی رابطہ مہم شروع کر دی ہے۔

 مریم نواز اسی انتخابی مہم کیلئے مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مقرر کی گئی ہیں۔ نواز شریف نہیں آ رہے اور انتخابات میں پارٹی کی قیادت ان کی طرف سے مریم نواز کریں گی۔ کچھ لوگ یہ کوشش بھی کررہے ہیں کہ وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے میں کامیاب نہ ہوں مگر نیا وزیر اعلیٰ بنے گا تو پی ٹی آئی کا ہی۔ یہ بات انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مومنہ وحید جو پی ٹی آئی کی ایم پی اے ہیں، انہوں نے پرویزالٰہی کو اعتماد کا ووٹ نہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ابھی میری تھوڑی دیر پہلے ان سے بات ہوئی ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی میں ایک اچھا خاصا گروپ ایسا پیدا ہو چکا ہے جو ق لیگ سے چھٹکارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ زہرہ نقوی بھی ووٹ نہ دینے کا اعلان کر چکی ہیں۔

 میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں۔ میں سمجھتا ہوں فواد چوہدری، اسد عمر اور مسرت جمشید چیمہ اگر ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کریں تو وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لے بھی سکتے ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم کی سب سے زیادہ توجہ خصوصی نشستوں پر منتخب ہونے والی ایم پی ایز پر ہے کہ انہوں نے آنے والا الیکشن تھوڑا ہی لڑنا ہے کہ انہیں پی ٹی آئی کے ٹکٹ کی ضرورت ہو۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو 186ووٹ حاصل کرنے ہیں انہیں 187 ارکان کی حمایت حاصل تھی جن میں مومنہ وحید اور زہرہ نقوی انکار کر چکی ہیں۔ دوسری طرف سے ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ پچیس سے تیس ارکان پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ نہیں دیں گے مگر مجھے اس دعوے میں کوئی حقیقت نظر نہیں آتی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔