بلاگ
Time 08 جنوری ، 2023

مریم نواز’’وزارت عظمیٰ ‘‘کی امیدوار؟

مسلم لیگ(ن) کے’’ تاحیات‘‘ سربراہ نواز شریف کی ہدایت پر پارٹی کے صدر شہباز شریف نے مریم نواز شریف کو نہ صرف مسلم لیگ(ن)کی سینئر نائب صدر مقرر کر دیا ہے بلکہ ان کو پارٹی کا ’’چیف آرگنائزر‘‘بھی بنا دیا ہے۔ یہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کا انتہائی اہم فیصلہ ہے۔

 اگلا اقدام یہ ہو سکتا ہے کہ نواز شریف پارٹی کی قیادت مریم نواز کے حوالے کر دیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق پارٹی کی تنظیم نو کی ذمہ داری مریم نواز کو سونپ دی گئی ہے جو تمام سطحوں پر پارٹی کو ’’ری آرگنائز‘‘کریں گی،اس تقرری کے بعد مریم نواز کو پارٹی کے اندر غیر معمولی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، مسلم لیگ( ن) کے صدر شہباز شریف نے اس حوالے سے بیان جاری کیا ہے کہ مریم نواز پارٹی امور چلانے کا وسیع تجربہ رکھتی ہیں اوروہ قائد نواز شریف کے وژن کے مطابق پارٹی امور بہترین انداز میں چلائیں گی۔ 

قبل ازیں مریم نواز کے پاس مسلم لیگ( ن) کی نائب صدارت تھی لیکن سینئر نائب صدر مقرر ہونے کے بعد ان کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کے بعد دوسری سینئر ترین پوزیشن حاصل ہو گئی ہے۔ قبل ازیں شاہد خاقان عباسی اکیلے اس منصب کو انجوائے کر رہے تھے۔ پارٹی کے آئین کے مطابق صرف ایک ہی سینئر نائب صدر ہوسکتا ہے لیکن اب مریم نواز کی بطور سینئر نائب صدرتقرری کے بعد شاہد خاقان عباسی کو اکاموڈیٹ کرنے کیلئے پارٹی آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی۔ پہلے مرحلے میں نواز شریف نے مریم نواز کو مسلم لیگ ن کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کا ممبر بنایا تھا جب کہ دوسرے مرحلے میں 37رکنی مرکزی پارلیمانی بورڈ کا رُکن بنا دیا گیا ۔ 

اس لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ جاری کرتے وقت مریم نواز کا عمل دخل بڑھ جائے گا ویسے بھی سینئر نائب صدر بننے سے قبل ہی مریم نواز نائب صدر کی حیثیت سے نواز شریف کی ملک میں عدم موجودگی میں پارٹی چلا رہی تھیں اب ان کو پارٹی کے صدر شہباز شریف کے سوا تمام عہدیداروں پر برتری حاصل ہو گئی ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر نواز شریف کی نا اہلیت بوجوہ ختم نہ ہوئی تو مریم نواز کوپارٹی کا صدر بنا دیا جائے گا۔ یہ بھی دکھائی دے رہا ہے کہ میاں نواز شریف رضاکارانہ طور سیاست میں اپنی بیٹی کے حق میں ’’اسٹیپ ڈاؤن‘‘ کر جائیں گے شاید اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہی منشا ہو،مجھے تو یہی نظر آتا ہے۔

 مستقبل قریب میں ہونے والے انتخابات میں مریم نواز پارٹی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کی امیدوار ہوں گی۔ مریم نواز، جو چار ماہ سے زائد عرصہ سے لندن میں مقیم ہیں، نے پارٹی کی سینئر نائب صدربننے کے بعد جلد پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا ہے ۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ مریم نواز اپنی نئی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے جنوری کے تیسرے ہفتے میں واپس پاکستان آئیں گی۔ مریم نواز اپنی سرجری کیلئے لندن سے جنیوا چلی گئی ہیں، مسلم لیگ (ن)کے قائد محمد نواز شریف بھی ان کے ہمراہ ہیں۔

کچھ عرصہ قبل سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا تھاکہ سب سے پہلے انہوں نے میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ مریم نواز کو مسلم لیگ (ن) کے اعلی ٰسطح کے اجلاسوں میں اپنی نشست کی پشت پر بٹھایا کریں تاکہ وہ قدرے حجاب میں رہ کر اجلاس کی کارروائی کاجائزہ لیں۔ ایک زمانہ تھا مریم نواز چوہدری نثار علی خان کو اپنا ’’آئیڈیل‘‘ سمجھتی تھیں لیکن جب چچا نے بھتیجی کی قیادت میں کام کرنے سے انکار کیا تو چوہدری نثار علی خان کومسلم لیگ (ن) سے الگ کر دیا گیا۔

 مریم نواز نے مسلم لیگ(ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں شرکت شروع کی اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ(ن) کا تمام انتظام و انصرام مریم نواز کے ہاتھ میں آگیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی ایک ٹیم بنائی جس نے عمران خان کے ’’میڈیا سیل‘‘ کا بھر پور مقابلہ کیا لیکن وسائل کی کمی یا عدم توجہ کے باعث مسلم لیگ کا میڈیا سیل غیر مؤثر ہو کر رہ گیا ۔مریم نواز گو تجربہ کے لحاظ سے تو جونیئر ترین سیاست دان ہیں لیکن انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنی ذات کی حد تک نواز شریف کے سیاسی مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا ،جب وہ ٹویٹ پر اپنا پیغام دیتی ہیں تو وہ نہ صرف زور دار ہوتا ہے بلکہ اس کے باعث وہ سیاسی حلقوں میں موضوع گفتگو بھی رہتی ہیں۔

بعض اوقات ان کے بیانات میں ’’تلخ نوائی‘‘ ہوتی ہے یہ ’’تلخ نوائی‘‘ وقت کے جبر کی پیدا کردہ ہے۔ وہ اپنے والد میاں نواز شریف کے ہمراہ احتساب عدالت میں 6،7ماہ کے عرصہ میں 70 سے زیادہ پیشیاں بھگت چکی ہیں۔ انہوں نے کئی سال تک اسلام آباد ہائی کورٹ میں انصاف کے حصول کیلئے بھی پیشیاں بھگتی ہیں۔۔

 یہ ان کے مضبوط اعصاب ہی ہیں کہ وہ ’’جبر کے ماحول‘‘ میں جرأت و استقامت سے ہر قسم کے نتائج کی پروا کئے بغیر ہر روز عدالت کے دروازے پر کھڑی ہوتی تھیں۔ انہوں نے میدان سیاست میں قدم رکھا تو ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے لیکن وہ احتساب عدالت میں چٹان کی طرح اپنے عظیم والد کے ساتھ کھڑی ہوتیں ۔ انہیں ’’قید وبند‘‘ کی صعوبتوں کا خوف دلا کر سیاسی طور پر سرنڈر کرنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن وہ پارٹی کارکنوں کیلئے جرأت و استقامت کی علامت بن گئیں۔ (جاری ہے)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔