بلاگ
Time 10 جنوری ، 2023

خانہ جنگی کا خطرہ؟

فواد چوہدری نے مسلط کئے گئے نااہل حکمرانوں کی ناکام حکمت عملی کا تذکرہ کرتے ہوئے بدترین حالات کی تصویر کشی کی ہے، ایسے ہی کچھ خدشات کا اظہار ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی کیا ہے۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں، ہر آنے والا دن نحوست میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے نااہل کرداروں نے چپ سادھ رکھی ہے، لوگوں کا جلوس نکل گیا ہےجب کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ 

شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہو کہ موجودہ حکمراں ٹولے کو اقتدار میں لانے کا سہرا کسی اور کے سر نہیں بلکہ ان لوگوں کے سر ہے جو ملکی بہتری کے لئے فیصلے کرنے کا راگ الاپتے ہیں۔ تیرہ جماعتوں کا ٹولہ اکٹھا تو کرلیا گیا مگر کسی نے یہ نہیں سوچا کہ یہ تیرہ تو وہی ہیں جنہوں نے اس ملک کا ’’چہرہ‘‘ داغ دار کیا تھا، ان داغوں میں کرپشن، اقربا پروری، قرضوں کی معافی، لوٹ مار، کمیشن خوری اور منی لانڈرنگ سمیت کئی اور نمایاں داغ ہیں مگر یہاں ملک کیلئے کون سوچتا ہے یہاں تو وقتی فائدے سوچے جاتے ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کبھی عوام کا تو سوچا ہی نہیں، ان کی نظریں عوامی مفاد کی طرف جاتی ہی نہیں ہیں۔ اگر عوام عزیز ہوتے تو یہ سب ہوتا؟ جو ہو رہا ہے،اسے کوئی روکنے والا ہوتا۔

زیادہ پرانی بات نہیں، صرف دس مہینے پہلے کی بات ہے یہاں لنگر خانے ہوا کرتے تھے جس کسی کو کھانا نہیں ملتا تھا وہ ان لنگر خانوں سے کھانا کھا لیتا تھا، نگرانی کا یہ عالم تھا کہ ان لنگر خانوں پر دیے جانے والے کھانے کو چیک کرنے کیلئے وزیراعظم خودپہنچ جایا کرتا تھا، ایک طرح سے مسافروں کے علاوہ غریبوں کو بھی کھانا میسر تھا مگر اب آٹا ہی نایاب ہوگیا ہے، آٹے پر لڑائیاں ہو رہی ہیں۔ 

حالات یہ ہوگئے ہیں کہ آٹے کا ایک ٹرک آتا ہےتو لوگوں کا بہت بڑا جلوس اس کے پیچھے ہوتا ہے، ہاتھوں میں نوٹ پکڑے ہوئے لوگ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور وہ ٹرک کہیں اور نکل جاتا ہے، سندھ اور بلوچستان کے کئی شہروں میں ایسے مناظر دیکھنے کو ملے ہیں کہ روح کانپ گئی ہے، انسانیت شرما گئی ہے، بچے بلک رہے ہیں اور حکمراں ٹس سے مس نہیں ہو رہے، آٹے کے منتظر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں، سارا سارا دن اس ملک کی عورتیں، یہاں کے بزرگ ہاتھوں میں پیسے تھام کر آٹے کا انتظار کرتے رہتے ہیں، اس ملک کو کیا سے کیا بنا دیاگیا ہے، جہاں سال پہلے لنگر خانوں میں عزت کے ساتھ مفت کھانا میسر تھا وہاں اب ذلت کیساتھ آٹا بھی میسر نہیں، مہنگا آٹا بھی لوگوں کو نہیں مل رہا، لوگ ذلت کی تصویر بن گئے ہیں، کل ایک ویڈیو دیکھنے کو ملی، ایک عورت ہاتھوں میں خالی برتن لئے غربت کا رونا رو رہی تھی، کہہ رہی تھی اس سے اچھا ہے انسان مر جائے، کاش اس غریب عورت کی یہ ویڈیو وہ لوگ دیکھ لیں جو آڈیو ویڈیو کا کاروبار کرتے ہیں، جو قوم کو یہی دھندہ دکھانا چاہتے ہیں۔

بات صرف آٹے کی نہیں، بات عزت اور غیرت کی بھی ہے۔ کہیں گیس نہیں تو کہیں بجلی نہیں، آدھی سے زیادہ فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں، جو چل رہی ہیں وہ بھی ہچکیاں لے رہی ہیں، تیرہ جماعتوں کے بڑے تجربہ کار لوگ برے طریقے سے بے نقاب ہوئے ہیں اور خواجہ آصف تو مزید برے طریقے سے کہ ان کا دفاع آبادی تک آن پہنچا ہے، ملک کا وزیر داخلہ خزانے کی باتیں کر رہا ہے، اور وزیراعظم روز کوئی نیا لطیفہ سنا دیتا ہے، ان کے کپڑے تو پتہ نہیں بکے ہیں یا نہیں مگر لوگوں کےکپڑے اتر گئے ہیں، بےروزگاروں کی تعداد میں سمندروں جیسا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ 

یہی ملک تھا کہ ایک سال پہلے فیصل آباد میں پاورلومز کو دو لاکھ مزدوروں کی کمی کا سامنا تھا، آج وہی لومز بند ہو رہی ہیں، کپڑے کے بڑے بڑے آرڈر کینسل ہو رہے ہیں، ہمارے ملک کے بڑے بزنس مینوں کو دوسرے ملک ویزہ بھی نہیں دے رہے، دنیا بھر میں کاروبار کرنے والے ہمارے کاروباری حضرات سے بات ہی نہیں کر رہے، ایل سیز نہیں کھل رہیں، مارکیٹ میں دوائیاں بھی ختم ہوتی جا رہی ہیں ، ان دوائیوں میں زندگی بچانے والی دوائیاں بھی ہیں، کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، بے روزگاری پھیل گئی ہے، کسان مجبور ہو چکا ہے، غریب آدمی پس گیا ہے، مڈل کلاس کی سانسیں اکھڑ گئی ہیں، کاروباری طبقہ پریشان ہے، ہر طرف خوف کی لہریں ہیں،ناامیدی کے لمبے سائے ہیں، زندگی بھوک کی کشتی پر سوار ہے اور یہ کشتی موت کی بے رحم لہروں کے دوش پر ہے، یہ لہریں کسی کوبھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں، سامنے خانہ جنگی ہے مگر حکمرانوں کو نظر نہیں آرہی، ہر طرف نحوست بکھری ہوئی ہے کوئی گلی کوئی شہر نحوست سے خالی نہیں ، بقول ناصر بشیر؎

ناصر بشیر کس کی نظر گھر کو کھا گئی

سایہ سا بچھ گیا میرے آنگن میں خوف کا


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔