01 جولائی ، 2023
اکثر افراد کو لگتا ہے کہ جیسے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور جیسے اس کو پر لگ گئے ہیں۔
یہاں تک کہ سال کے اختتام پر لگتا ہےکہ یہ برس تو بہت تیزی سےگزر گیا یا ایسا محسوس ہوتا ہےکہ گزشتہ ہفتے یا مہینےکی کسی تقریب یا چھٹی کو گزرے برسوں بیت گئے۔
تو ایسا کیوں ہوتا ہے یعنی وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا کیوں محسوس ہوتا ہے؟
اس کا جواب بہت دلچسپ ہے۔
ویسے اس سے پہلے یہ جان لیں کہ بڑوں کے مقابلے میں بچوں کو وقت بہت سست روی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔
اس کا جواب ہمارے دماغ میں چھپا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے تو ہمارے دماغ کی اندرونی گھڑی کی رفتار سست ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں زندگی تیز رفتار محسوس ہونے لگتی ہے۔
دیگر تحقیقی رپورٹس میں عندیہ دیا گیا ہےکہ وقت گزرنے کے احساس اور نئی ادراکی تفصیلات کے درمیان تعلق موجود ہے۔
یعنی جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو سب کچھ نیا لگتا ہے جس کے باعث ہمارے دماغ کو زیادہ تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور اس کے نتیجے میں وقت گزرنے کی رفتار سست محسوس ہوتی ہے۔
ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کسی منفرد سرگرمی کے نتیجے میں دماغ سے خارج ہونے والے ہارمون ڈوپامائن کے اخراج کی شرح میں 20 سال کی عمر کے بعد کمی آنے لگتی ہے، جس کے باعث ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ وقت بہت تیزرفتاری سے گزر رہا ہے۔
جب ہماری عمر بڑھتی ہے تو زندگی کے معمولات بھی یکساں ہونے لگتے ہیں اور کچھ نیا سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اس کے مقابلے میں بچپن اور نوجوانی میں ہم بہت کچھ پہلی بار کرتے ہیں جیسے اسکول کا پہلا دن، گرمیوں کی تعطیلات کا پہلا دن، پہلا دوست، پہلی ملازمت اور بھی بہت کچھ۔
تو جب زندگی کے شروع میں ہم نئی چیزوں کا حصہ بنتے ہیں تو وقت سست روی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے مگر جب ہماری زندگی ایک جگہ ٹھہر جاتی ہے اور لگے بندھے معمولات پر مشتمل ہوتی ہے تو وقت بہت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
جب زندگی یکساں انداز سے گزرتی ہے تو ہمارے دماغ کے پاس کرنےکے لیے کچھ زیادہ کام نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے وقت بہت تیزی سے گزرنے کا احساس ہوتا ہے۔
یعنی اگر عمر بڑھنے کے باوجود نئی سرگرمیوں کا حصہ بننے کو ترجیح دی جائے تو پھر وقت تیزی سے گزرنے کا احساس نہیں ہوگا۔
جب آپ بہت خوش ہوں اور کسی من پسند سرگرمی کا حصہ بن جائیں تو ایسا محسوس ہو کہ وقت پر لگا کر گزر رہا ہے لیکن جب بیزار یا اداس ہوں تو وقت کاٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ہمارا دماغ وقت گزرنے کے احساس کو مختلف رفتار سے پیش کرتا ہے اور اس کا انحصار ہماری مصروفیت یا بیزاری پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر جب آپ کوئی ایسا کام کررہے ہوں جو مخصوص وقت میں کرنا ہو یا کسی پیچیدہ مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہوں تو وقت اڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اسی طرح گیم کھیلتے ہوئے، کسی اچھی فلم کو دیکھتے ہوئے یا کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی وقت کو پر لگ جاتے ہیں۔
اس دوران دماغ مختلف منظرناموں کو دیکھتا ہے جس کے نتیجے میں لگتا ہے کہ جیسے وقت کو پر لگ گئے ہیں اور اس کے برعکس جب آپ بیزار ہوتے ہیں تو دماغ کے لیے وقت کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
محققین کے مطابق دماغ میں وقت کے حوالے سے مختلف میکنزم ہوتے ہیں، جن میں سے ایک میکنزم رفتار کا ہے جو کہ دماغی خلیات کو متحرک کرکے کسی سرگرمی کے لیے نیٹ ورک کو تشکیل دیتا ہے۔
یہ خلیات جتنی تیزی سے اپنا راستہ بناتے ہیں، اتنا ہی ہمیں وقت تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ وقت کی رفتار زیادہ تیزی سے گزرتی محسوس ہونے لگتی ہے، بچپن میں ہمارا دماغ یادداشت کے گنجان نیٹ ورک کو تشکیل دیتا ہے تاکہ اس زمانے کے واقعات اور تجربات یاد رہ سکیں۔
بڑے ہونے پر لوگ بہت کچھ دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اس طرح کے گنجان نیٹ ورک کی ضرورت نہیں ہوتی۔