21 جنوری ، 2023
جیسا کہ ہم جانتے ہیں، پاکستان کے عوام امریکہ سے بے حد نفرت کرتے ہیں۔ اس میں دائیں بازو کے قدامت پسند طبقے اور بائیں بازو کے ترقی پسند طبقے کی تمیز نہیں۔ قدامت پسند پاکستانی امریکہ کو اخلاق باختگی اور اسلام دشمنی کا مرکز قرار دیتے ہیں۔ ہمیں شکوہ ہے کہ امریکہ نے کشمیر حاصل کرنے میں پاکستان کی مدد نہیں کی۔
دوسری طرف ترقی پسند پاکستانی امریکہ کو عالمی سامراج اور سرمایہ دارانہ استحصال نیز چھوٹی قوموں کے خلاف سازشوں کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ ہمیں مسئلہ فلسطین پر عربوں کے مقابلے میں اسرائیل کی امریکی حمایت بھی ناپسند ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی شہری اٹنگا پاجاما اور کترواں ریش کو ترجیح دیتا ہو یا مغربی اکل و شرب سے شغف رکھتا ہو، پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے باہر ویزے کی درخواست لئے یکساں ذوق و شوق سے قطار میں کھڑا ہوتا ہے۔ بیماری کا علاج کرانا ہو یا بچوں کی تعلیم یا پھر ریٹائرمنٹ کے بعد نامعلوم ذرائع سے حاصل اثاثوں کے بل پر خوشگوار شام زندگی کا خواب ہو، امریکہ ہی کا رخ کرتا ہے۔
60اور 80 کی دہائیوں اور پھر موجودہ صدی کے پہلے عشرے میں امریکی ڈالروں کی بارش پر اہل پاکستان پھولے نہیں سماتے تھے۔ ان تین ادوار میں بالترتیب ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف پاکستان پر مسلط تھے۔ اب دنیا بدل رہی ہے۔ ابھرتی ہوئی معاشی طاقت بھارت کے امریکہ سے خصوصی تعلقات ہیں۔
دوسری طرف چین اور امریکہ میں تجارت کا حجم 760 ارب ڈالر کے ہندسے کو چھو رہا ہے۔ بھارت اور چین کے بیچ پاکستان معاشی بدحالی کا ایک منطقہ بن کے رہ گیا ہے جس کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے نہیں بڑھتے۔ برآمدی شعبے میں پاکستان کا انحصار ٹیکسٹائل مصنوعات پر رہا ہے لیکن اب وہاں بھی پانی مر رہا ہے۔ ایسی ناقابل رشک معاشی صورتحال میں ملکی سیاست مسلسل بے یقینی کا شکار ہے۔
دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہو چکیں اور وفاقی حکومت آئندہ موسم گرما میں عام انتخابات کے انتظار میں ہے۔ سچ یہ ہے کہ سیاسی بحران کی بنیادی ذمہ داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے عدم اعتماد کے مسلمہ پارلیمانی طریقہ کار سے انکار کر کے ملک کو مفلوج کر رکھا ہے۔ عمران خان کی سیاست کے اتار چڑھائو پر نظر ڈالنے سے پہلے مون واک کی اصطلاح پر کچھ بات کرتے ہیں۔
امریکہ کے جنوب مغربی ساحل پر ریاست کیلی فورنیا میں لاس اینجلس کائونٹی ہالی ووڈ فلم انڈسٹری کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ یہاں پاسوڈینا نام کے قصبے میں 1932ء میں قائم ہونے والا پاسوڈینا سوک آڈیٹوریم امریکہ میں پرفارمنگ آرٹ کے جدید رجحانات کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ 25 مارچ 1983ء کو مائیکل جیکسن نے یہاں رقص کا ایک جدید انداز متعارف کرایا تھا جسے مون واک ڈانس کہا جاتا ہے۔
اس میں فنکار انتہائی مہارت سے پیچھے کی طرف قدم اٹھاتا ہے مگر تماشائیوں کو بصری التباس ہوتا ہے کہ گویا رقاص آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ رقص کا ایک مشکل نمونہ ہے۔ گویا قدم جرمن کے بڑھتے ہیں، فتح انگلش کی ہوتی ہے۔ گزشتہ گیارہ ماہ کی سیاست میں عمران خان نے مون واک کا ایک اچھا نمونہ پیش کیا ہے۔ جھگڑا تو سادہ تھا۔ عمران صاحب نومبر 2022ء میں اپنی مرضی کا فوجی سربراہ مقرر کر کے جمہوری سیاسی قوتوں کو ملیامیٹ کرنا چاہتے تھے لیکن معاشی، سیاسی اور سفارتی سطح پر کارکردگی صفر تھی۔
عمران خان کے نقارچی حالیہ مہینوں میں دعویٰ کر رہے ہیں کہ 2022ء کی ابتدا میں عمران خان تیزی سے غیر مقبول ہو رہے تھے لیکن وزارت عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد ان کی مقبولیت بڑھ گئی ہے۔ سوال ہے کہ کیا ان اصحاب نے عمران حکومت کے آخری مہینوں میں کسی تحریر یا بیان میں عمران خان کی عدم مقبولیت کا اعتراف کیا تھا؟ یہ جھوٹ وہ اب اس لئے بول رہے ہیں کہ اپریل میں عدم اعتماد کو جمہوری قوتوں کی غلطی قرار دیا جا سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پراجیکٹ عمران کی ٹھیکریاں چوراہے میں بکھری ہوئی ہیں۔
عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کا خیر مقدم کیا لیکن جب حکومت جاتی نظر آئی تو سائفر نامی کاغذ کا ایک پرزہ نکال لائے اور پھر اس نام نہاد سازش سے بھی پیچھے ہٹ گئے۔ تحریک عدم اعتماد کے عمل کو طول دینے کی پوری کوشش کی۔ قومی اسمبلی تحلیل کرنا چاہی۔ جب کوئی بس نہ چلا تو قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کر کے باہر چلے آئے۔ دستور کا کوئی حوالہ دیے بغیر فوری انتخابات کا مطالبہ کیا۔ 25 مئی کو عدالتی حکم کی سراسر خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈ زون تک جا پہنچے۔پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا کر پنجاب پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
وزیر آباد حملے کو قانونی طریقہ کار کی بجائے سیاسی رنگ دینے کے لئے بے بنیاد الزام تراشی کی لیکن اپنی صوبائی حکومت سے ایف آئی آر تک درج نہ کرا سکے۔ جولائی میں پنجاب کے ضمنی انتخابات اور پھر 17اکتوبر کو قومی اسمبلی کی چھ نشستوں پر کامیابی سے حوصلہ پا کر دو تہائی اکثریت کے دعوے کئے۔ 29 نومبر کی نشان زد تاریخ سے صرف چار روز قبل لانگ مارچ لے کر پنڈی پہنچے لیکن شرکا کی تعداد سے مایوس ہو کر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر کے لوٹ آئے۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے گیارہ استعفے منظور کئے تو اسے تسلیم کر کے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔ عین اسی طریقہ کار کے مطابق دو مرحلوں میں کل ملا کر 80استعفے قبول کئے گئے تو بلبلا اٹھے۔ حساس تعیناتی میں کوئی کردار ادا کر سکے اور نہ فوری انتخابات کا مطالبہ منوا سکے۔ الٹا دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے اپنے ہاتھ کٹوا لئے۔ گزشتہ گیارہ ماہ میں عمران خان نے مون واک سیاست کا اچھا نمونہ پیش کیا ہے لیکن وہ یہ فراموش کر گئے کہ چاند پر چہل قدمی کا نتیجہ بے وزنی کی صورت میں نکلتا ہے۔ چھلکا سڑک پہ تھا، میری ٹانگیں ہوا میں تھیں۔