بلاگ
Time 05 فروری ، 2023

قرآن کی بے حرمتی، مقدمہ کون کرے گا؟

سویڈن میں اگرفلسطینی مسلمانوں کاچھوٹا سا گروہ اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے پہنچ جائے، وہاں وہ یہودیوں کے خلاف نعرے بازی کرے اور انہیں سویڈن سے نکال باہر کرنےکا عزم کرے ، یہی نہیں بلکہ اُن مسلمانوں کے ہاتھ میں تورات کا نسخہ ہو اور وہ اسےاسرائیلی یہودیوں کے سامنے نذر آتش کردیں تو آپ کا کیا خیال ہے کہ امریکہ سے لے کر آسڑیلیا تک مغربی دنیا کا کیا ردِ عمل ہوگا؟

کیا آزادی اظہار کے یہ چیمپئن اُس وقت بھی یہی راگ الاپیں گے جو قرآن کا نسخہ جلائے جانے پر الاپ رہے ہیں ؟ یا پھر مہذب دنیا کے اِن ٹھیکیدار وں کو آزادیٔ اظہار کی حدود یاد آجائیں گی؟چلئے مفروضے سے باہر نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آتے ہیں۔

سویڈن میں ایک شخص نے ، جوکہ انتہا پسندانہ خیالات کا حامل ہے ،گزشتہ ماہ قرآن کے ایک نسخے کو نذر آتش کیا، سویڈش حکومت نے اِس حرکت کی مذمت کی مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ حرکت چوں کہ آزادی اظہار کے زمرے میں آتی ہے اِس لئےوہ اسے روک نہیں سکتے ۔

اِس واقعےکے بعدسویڈش حکومت کے رویے کو بے نقاب کرنے کے لئےایک مصری نژادسویڈش شہری نے عجیب و غریب ترکیب سوچی ، اُس نےسویڈش حکام کو درخواست جمع کروائی کہ وہ اسٹاک ہوم میں واقع اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرنا چاہتا ہے جہاں تورات کے نسخے کو آگ بھی لگائی جائے گی ۔اسرائیلی سفارت کاروں کو جب اِس بات کا پتا چلا تو انہوں نے سویڈن کے اعلیٰ حکام سے بات کی اور اِس ’نفر ت آمیز‘ حرکت کو رُکوانے کے لئے دباؤ ڈالا۔

یہ واضح نہیں کہ سویڈش حکام نے تورات کو جلانے اور مظاہرہ کرنے کی اجازت دی یا نہیں البتہ سویڈن میں مقیم مسلمانوں کے اصرارپراُس شخص نے اپنا یہ ’احتجاج‘ منسوخ کر دیا۔ تورات، بہرحال مسلمانوں کیلئے بھی مقدس کتاب ہے اور قرآن میں تمام الہامی کتب ،بشمول تورات ،زبور، انجیل کا ذکر اِن الفاظ میں آیا ہے :’’اور ہم نے ان کے پیچھے عیسیٰ ابن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب یعنی تورات کی تصدیق کرنے والے تھےاور ہم نے انہیں انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی اور اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتی تھی اور وہ سراسر ہدایت و نصیحت تھی پارسا لوگوں کیلئے۔‘‘(المائدہ، آیت 46)۔ در اصل کوئی بھی شخص ، جماعت یاگروہ جب کسی کتاب کو نذر آتش کرتا ہے تو گویا وہ اپنی شکست کا اعلان کررہا ہوتا ہے، وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اُس کے پاس اِس کتاب میں لکھی باتوں کا کوئی جواب نہیں اور یوں وہ بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کتاب ہی جلا ڈالتا ہے ۔

سویڈن کے شہری نے قرآن پاک کو جلا کر اِسی بے بسی کا اظہار کیا ہے ، اُس نے گویا یہ تسلیم کیا ہے کہ اُس کے پاس قرآن میں موجود باتوں کا کوئی جواب نہیں ، اُس کے پاس کوئی دلیل نہیںاور عقل سے کرنے والی کوئی بات نہیں جو قرآن کو رٔد کرسکے ، سو جب وہ ناکام ہوگیا تو اُس نے اعترافِ شکست کے طور پر قرآن کو ہی آگ لگا دی۔

ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے مغرب کو ایک ہوّا بنا کررکھا ہوا ہے ، ان کا خیال ہے کہ مغرب نےاگر کسی معاملے پرکوئی معیار طے کردیا ہے تو وہ تقریباً حتمی ہے کیونکہ وہ لوگ بہت غور و خوض کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں اور ہر معاملے کی خوب پڑتال کرکےکوئی معیار طے کرتے ہیں اور چوں کہ اِن معاشروں نے ایسی ہی سوچ بچار سے ترقی کی ہے لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ اُن کےطے کردہ کسی معیار میں کوئی سقم ہو۔

 آزادیٔ اظہار کا معاملہ اِس کی ایک بہترین مثال ہے، مغرب میں آزادیٔ اظہار کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا لہٰذا گستاخانہ خاکے بنانے کا معاملہ ہو یا قرآن کو آگ لگانے کا، وہ آزادیٔ اظہار کے حق کی آڑ لے کر اِس کا دفاع کرتے ہیں لیکن آزادی اظہار کی حقیقت اُس وقت عریاں ہوجاتی ہے جب معاملہ اسرائیل سے متعلق ہو، پھر کیا جرمنی اور کیا سویڈن، کیا امریکہ اور کیا فرانس ، سب یک زبان ہو کر اسرائیل کی حمایت میں نعرے لگانے لگتے ہیں ۔دی کونسل آف یورپ ایک بین الاقوامی تنظیم ہے ،46 یورپی ممالک اِس کے رکن ہیں ، یورپ میں جمہوریت، قانون کی عملدار ی اور انسانی حقوق کا ٹھیکہ اسی تنظیم کے پاس ہے، اِس نے یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق بنا رکھے ہیں اور اِس تنظیم نے’ ’ردِ مرگ انبوہ‘‘ (Holocaust Denial)کے خلاف قانون سازی میں کلیدی کردار ادا کیاہے ۔

 کونسل آف یورپ کے اِن اقدامات نے یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کو بھی اثرانداز کیا ہے ، اِس عدالت نے بے شمار مواقع پر اِس قسم کے فیصلے دیے ہیں کہ ہولوکاسٹ کا انکار آزادیٔ اظہار کے زمرےمیں نہیں آتا حالانکہ یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق کی شق نمبر 10 اسی آزادیٔ اظہار کی ضمانت دیتی ہے جس کے تحت یورپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی جاتی ہے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ شق 10 میں وہ تمام حدود بھی درج ہیں جو آزادیٔ اظہار پر لاگو ہوتی ہیں لیکن جب معاملہ قرآن کی بے حرمتی کا ہوتو پھر یہ حدود کسی یورپی جج یا وزیر اعظم کو نظر نہیں آتیں البتہ آپ نے اگرہولوکاسٹ کا انکار کر دیا تو یورپ کی عدالتِ انصاف کو وہ تمام حدود یاد آجائیں گی جو شق10 میں لکھی ہیں اور ساتھ ہی کنونشن کی شق17 بھی یاد آجائے گی جس میں لکھا ہے کہ کسی بھی شخص کے حقوق کی تشریح اِس انداز میں نہیں کی جائے گی کہ اُس سے دوسروں کے حقوق کا تحفظ خطرے میں پڑجائے۔

میں اگرکسی یورپی ملک کا شہری ہوتا تو یورپی عدالت برائے انسانی حقوق میں قرآن کی بے حرمتی کے خلاف ایک درخواست دائر کرتا جس میں یورپی عدالت کے انہی فیصلوں کا حوالہ دیتا جو اُس نے ہولوکاسٹ کے ضمن میں دے رکھے ہیں اور جن کے تحت اظہار رائے کی لامحدود آزادی پر پابندی عائد ہے ۔ افسوس کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا لیکن کیا کوئی ایک بھی یورپی مسلمان ایسا نہیں جو یورپی عدالت برائے انسانی حقو ق میں یہ مقدمہ دائر کر سکے؟ اِس مقدمے پر بہرحال ڈی ایچ اے میں ایک پلاٹ خریدنے سے کم ہی خرچہ آئے گا!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔