بلاگ
Time 20 فروری ، 2023

بس دعا ہی کر سکتا ہوں

نئی آڈیو لیکس کے ساتھ نئی بحثیں، نئی سیاست اور نئے الزامات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اب کی بار جو آڈیو لیکس سامنے آ رہی ہیں اُن کا نشانہ سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز کو زبردست مصالحے دار موضوع مل گیاہے، سوشل میڈیا کے تو مزے ہی ہو گئے ہیں۔ سیاستدان بھی ان لیکس پر اپنے اپنے سیاسی مفادات کے مطابق سیاست کر رہے ہیں۔ 

حکمراں پی ڈی ایم اور خصوصاً ن لیگ نے تو باقاعدہ مطالبہ کیا ہے کہ مبینہ آڈیو کی فارنزک کے علاوہ سپریم جوڈیشل کونسل کو انکوائری بھی کروانی چاہئے اور جن جج صاحب پر الزام ہے ، وہ اگر درست ثابت ہوتا ہے تو اُن کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ آڈیوز کے درست ہونے پر پرویز الٰہی جن کے سپریم کورٹ میں زیرِسماعت مقدمات سے متعلق مبینہ طور پر جج اور ایک اہم وکیل رہنما سے بات ہو رہی تھی، اُن کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بار کونسل بھی انکوائری کا مطالبہ کر رہی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ ن لیگ عدلیہ پر دباو ڈال رہی ہے اور یہ آڈیو لیکس ججوں پردباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے فیصلے لینے کی کوشش ہے۔

 میڈیا اور کئی اطراف سے اس توقع کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس اس اسکینڈل پر سو موٹو ایکشن لیں گے۔ حکومت نے آڈیوز کو فارنزک کے لئے ایف آئی اے کو بھیج دیا ہے ۔ فارنزک سے اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ آڈیوز درست ہیں تو پھر حکومت یا ن لیگ کی طرف سے سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ یہ خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے اس موضوع پر چند روز پہلے آپس میں بات کی لیکن کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

 ایک ذریعے کے مطابق اکثر جج حضرات کا اس پریہ اعتراض تھا کہ آڈیو یکارڈ کیوں کی گئی۔ دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔ لیکن یہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کوئی زیادہ امید نہیں کہ یہ آڈیوز اگر سچ بھی ثابت ہوگئیں تو کوئی ایکشن لیا جائے گا، کسی کو مثال بنایا جائے گا۔ پہلے بھی کیسی کیسی آڈیوز سامنے آ چکی ہیں مگر کچھ نہیں ہوا۔

 عدلیہ سے متعلق ، بڑے بڑے ججوں کے متعلق کتنے بڑے بڑے اسکینڈل سامنے آتے رہے لیکن کچھ نہیں ہوا؟ ہم اگرایسے اسکینڈلز اور سنگین الزامات پر ماضی میں ایکشن لیتے تو ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔ خاص طور پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تو ہمیشہ سے احتساب سے بالاتر اور قانون کی گرفت سے دور ر ہےہیں۔

گزشتہ تین چار دہائیوں میں کتنے ججوں اور جرنیلوں کو سیاسی انجینئرنگ کرنے کے الزام پر سزا دی گئی۔ کسی ایک کا ہی نام بتا دیں۔ ہاں ایکشن ہوا تو جسٹس ریٹائرڈ شوکت صدیقی کے خلاف اور وہ اس لئے کہ اُنہوں نے بحیثیت اعلیٰ عدلیہ کے جج کے کمال جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ اُس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کے لئے عدلیہ پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے بنچ بنواتی رہی۔ 

ایک اہم جج کی طرف سے اس الزام پر انکوائری ہونی چاہئے تھی ، شوکت صدیقی صاحب سے ثبوت مانگے جانے چاہئے تھے لیکن اس الزام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور الٹا ایکشن صدیقی صاحب کے خلاف شروع کر دیا گیا کہ اُنہوں نے یہ بات کی ہی کیوں؟ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں پیش ہوا اور صدیقی صاحب کو یہ سچ بولنے پر نوکری سے ہی نکال دیا گیا جس کو آج سب درست مانتے ہیں۔

 بحیثیت قوم ہمارا کوئی حال نہیں۔ جس طرف دیکھیں مایوسی ہی مایوسی ہے۔ کوئی ادارہ اپنا کام ڈھنگ سے نہیں کر رہا۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی ایک تاریخ ہے جس سے یہاں بہت سی خرابیوں نے جنم لیا۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری عدلیہ کی تاریخ بھی بڑی مایوس کن رہی۔ عدلیہ اگرٹھیک ہو، انصاف کا نظام زبردست طور پر کام کر رہا ہو تو پھر بڑے سے بڑے بگاڑ کے درست ہونے کی امید ہوتی ہے۔ 

لیکن اگر عدلیہ ہی متنازعہ ہو، ججوں کی تعیناتی کا سسٹم ہی میرٹ کی بجائے پسند وناپسند کی مرہون منت ہو، عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ رہی ہو، انصاف کے نام پر سیاست کرے تو پھر کوئی کس سے بہتری کی امید کرے؟ جب عدلیہ کا نظام ٹھیک ہوگا تو بہت کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا۔ ایسا پاکستان میں کب ہو گا؟ اس حوالے سے مجھے کوئی زیادہ امید نہیں۔ بس دعا ہی کر سکتا ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔