25 فروری ، 2023
مجھے پاکستانیوں کے بارے میں یہ ’’بدگمانی‘‘ تھی کہ جاوید اختر صاحب کو بہت عزت و احترام سے پاکستان بلایا گیا مگر اس کے جواب میں ان کی طرف سے پاکستان کو یک طرفہ مجرم قرار دینے پر ہمارے ادیب ’’نیوٹرل‘‘ رہیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ سوشل میڈیا احتجاجی پوسٹ سے بھرا ہوا ہے، ہمارے ادیبوں کو رنج ہواہے اور انہوں نے اپنے رنج کا اظہار بھی ادبی پیرائے میں کیا ہے۔ ذیل میں شہزاد نیئر کی پوسٹ ملاحظہ فرمائیں:
نہیں جاوید اختر صاحب !آپ متوازن بات نہیں کر سکے۔ ممبئی حملوں کے ساتھ ہی آپ کو سمجھوتہ ایکسپریس پر بھارت میں ہوئے حملے کا ذکر بھی کرنا چاہئے تھا۔ سری لنکن ٹیم پر حملہ اسی لاہور میں ہوا تھا جہاں آپ عزت و محبت کے جھرمٹ میں بیٹھ کر یہ ارشادات فرما رہے تھے۔ شاید آپ کو کلبھوشن اور ابھی نندن بھی بھول گئے ہوں گے!ہمارے ملکوں کی دوطرفہ تاریخ ہے۔
کسی ایک جانب سے بات کرنا آپ ایسے فنکار کو زیبا نہیں۔ فنکار تو عوام کا مشترک سرمایہ ہوتا ہے۔ ہم نے آپ کی ویڈیوز دیکھیں۔ آپ مدلل بات کرتے ہیں۔ لاہور کے فیض امن میلے میں آپ غیرمعتدل بات کیسے کر سکتے ہیں؟ آپ نے ساحر لدھیانوی کا ذکر تو کیا، کاش ان کی نظم’’ اے شریف انسانو‘‘ دل کی آنکھ سے پڑھ لیتے۔ آپ سے مخفی نہیں ہو گا کہ انتہا پسندی دونوں ملکوں کا ایک جیسا مسئلہ ہے۔ نفرت اور شدت پسندی کے مظاہر سرحد کے دونوں طرف نظر آتے ہیں۔
غربت، جہالت اور طبقاتی کشمکش بھی ایک طرح کی ہے۔ آپ ترقی پسند شاعر ہیں۔ آپ کو تو حکومتوں کے پروپیگنڈے سے اوپر اٹھ کر بات کرنی چاہئے تھی۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ پاک و ہند کے عوام ایک دوسرے کے فنکاروں سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ آپ نے تعصب کی میزان پر کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، نصرت فتح علی خاں اور مہدی حسن کو بھی رکھ چھوڑا جہاں پاکستان کے عوام نے بھارتی فنکاروں کو پیار کے تمغوں سے نوازا وہیں حکومت پاکستان نے بھی کئی بڑے سرکاری اعزازات دئیے۔ عظیم اداکار دلیپ کمار کو سب سے بڑا سول ایوارڈ’’نشان پاکستان‘‘ دیا گیا۔ ہماری جانب سے مرار جی ڈیسائی (سیاستدان) کو بھی 1988 میں یہی ایوارڈ دیا گیا تھا۔
سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات کی فہرست طویل ہے۔ نہیں جاوید اختر صاحب!آپ کا یہ کہنا بھی درست نہیں کہ پاکستان میں بھارتی فنکاروں کے شو نہیں ہوتے۔ بہت سے شاعر، گلوکار، اداکار پاکستان سے بے پناہ محبتیں سمیٹ کر جاتے ہیں۔ اس بات کا آپ سے بڑھ کر بھلا کس کو پتہ ہو گا، ایسی ہی محبتیں پاکستانی فنکاروں کو بھارتی عوام بھی دیتے ہیں تاہم آپ کو یہ بھی معلوم ہوگا کہ بھارت میں پاکستانی فنکاروں کی پرفارمنس پر پابندی کس جماعت نے لگوائی اور کون لوگ پاکستانی فنکاروں کے پروگراموں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جاوید اختر صاحب آپ کو خوب معلوم ہے کہ پاکستانی پیار کرنے والی قوم ہے۔ یہ آپ کو ہر بار پاکستان یاترا پر معلوم ہوتا ہو گا۔
آپ کوتو آپ ہیں، آپ کے لکھے اور نصرت فتح علی خاں کے گائے گیت ’’آفریں آفریں‘‘ کو جتنا پیار پاکستانی عوام نے دیا ہے اسے آپ کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ جاوید اختر صاحب آپ سے متنازعہ اور یک طرفہ گفتگو کی توقع نہیں تھی۔ ہم پاکستانی آپ کے الفاظ سے مجروح ہوئے ہیں۔ کاش آپ دونوں طرف ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اقلیتوں پر ہونے والے مظالم، امتیازی قوانین، ریاستی جبر، مذہبی تشدد ، اسلحے کی دوڑ، سرمائے کے ارتکاز اور غریب کی حالت زار کی مساویانہ بات کرتے تو ہم سمجھتے کوئی بڑا فنکار بول رہا ہے۔ سچا فنکار عوام کا ہوتا ہے اور وہ ریاستی بیانیوں کا شکار نہیں بنتا۔نہیں جاوید اختر صاحب! آپ کا سارا سفر ساحر لدھیانوی کی ایک نظم ’’اے شریف انسانو‘‘ تک بھی نہیں پہنچ سکا۔ (شہزاد نیر۔۔ایک شاعر)
شہزاد نیئر کی رپورٹ پر جلیل عالی کا تبصرہ بھی ملاحظہ کریں:
شہزاد صاحب پاکستان کی طرف سے جاوید اختر صاحب کے یک طرفہ ’’ارشادات‘‘ کا نوٹس لینے اور ٹھوس جواب دینے پر بے حد شکریہ و تحسین مگر معاف کیجیے گا آپ نے لحاظ داری میں جو یہ کہہ دیا کہ دونوں طرف برابر کی صورتحال ہے۔ معروضی حقائق اس کی تائید نہیں کرتے۔1:ستر سالہ سیکولرزم اور مسلسل جمہوریت کے باوجود بھارت میں اکثریتی ووٹوں سے بنی ہوئی فنڈامنٹلسٹوں کی حکومت ہے۔ پاکستان میں چار بار مارشل لاؤں کی ملائیت پروری کے باوجود بنیاد پرستی پانچ فیصد ووٹ بھی نہیں لے پاتی۔2: پاکستان نے تو آج تک بھارتی مہمان کھلاڑیوں یا فن کاروں پر حملے نہیں کئے، کبھی انہیں پتھر نہیں مارے۔جب کہ.... اب کیا کیا لکھوں؟3: یہ جو کشمیریوں کے ساتھ خود اپنے آئین اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ظلم و ستم کی انتہا کا تسلسل چل رہا ہے....اور بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔