پی ڈی ایم کی قید میں

عمران خان کی ’’جیل بھرو تحریک‘‘نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔یہ بحث اب بےمعنی ہوچکی کہ کتنے لوگوں نے گرفتاری دی،اہم بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام، سیاسی کارکنان اور قائدین میں یہ سیاسی شعور پختہ ہو چکا ہے کہ وہ عظیم مقصد کیلئے ذاتی آزادی کی قربانی دے سکتے ہیں۔ 

عمران خان کی مسلسل جدوجہد،ہم عصر سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی بدترین کارکردگی،کرپشن کی پھیلی ہوئی جابجا داستانوں، پی ڈی ایم قائدین کی اندرون ملک اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادوں اور اقربا پروری کے تاثر نے پاکستانی قوم میں یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اس وقت اگر کوئی شخص اپنی ذات کی نفی کر کے صرف پاکستانی عوام کیلئے جدوجہد کر رہا ہے تو وہ عمران خان ہے۔مجھے بھی اس منفرد تحریک کا حصہ بننے کا موقع ملا۔میں جب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سرگودھا میں قائم تحریک انصاف کی جانب سے گرفتاری دینےکیلئے پہنچا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ گرفتاری کیمپ میں 15 سال کے بچوں سے لے کر ستر سالہ بزرگوں تک، ہر عمر کا شہری عمران خان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے موجود تھا۔

اس تحریک کا آغاز فروری 22 فروری 2023 کو لاہور سے ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستانی عوام کیلئے حقیقی آزادی حاصل کرنا اور کرپٹ مافیا سے جان چھڑانے کی جدوجہد کرنا تھا، یہ مہم لاہور سے شروع ہوئی اور پشاور، راولپنڈی، ملتان، گوجرانوالہ، سرگودھا، ساہیوال اور فیصل آباد سمیت دیگر شہروں میں جاری رہی۔

اگرچہ پشاور اور ملتان میں تحریک انصاف کی مقامی قیادت کی کارکردگی ہرگز قابل تحسین نہ تھی۔جن لوگوں نے وزارت اعلیٰ اور دیگر عہدوں کا لطف اٹھایا تھا ، ان کا گرفتاری سے راہ فرار اختیار کرنا ایک شرمناک عمل ہے لیکن 26فروری 2023 کو سرگودھا سے کارکنوں نےبڑی تعداد میں گرفتاریاں دے کر ان کا قرض بھی چکا دیا۔میرے ساتھ گرفتاری پیش کرنے والوں میں 15 سالہ معصوم بچہ شاہویز اور 20 سالہ نوجوان اسامہ بھی شامل تھا جنہیں سب نے ’’قیدیوں کی بس‘‘سے اتر جانے پر اصرار کیا لیکن وہ بضد رہا کہ وہ اپنے قائد عمران خان کے حکم پر ہر صورت میں گرفتاری دے گا۔

میرے ساتھ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جناب اسد عمر بھی استقامت کی عملی تصویر بنے رہے۔70سالہ بزرگ اور سابق ایم پی اے علی اصغر لاہڑی کا جذبہ نوجوانوں کو گرماتا رہا، سابق صوبائی وزیر عنصر مجید نیازی،سہیل اختر گجر،نفیس ہرل، ماجد بسرا،خالق داد پڑھار،حسن انعام پراچہ اور رانا حامد نواز سمیت ہر حلقہ سے سابق پارلیمنٹیرینزاور ٹکٹ ہولڈرز بھی رضاکارانہ گرفتاری دینے کیلئے موجود تھے۔

 گرفتاری کے بعد ہمیں قیدیوں کی وین میں بٹھا کر کئی گھنٹے تک مختلف شاہراہوں پر سفرکروایا جاتا رہا اور ایک تھانے میں بند کر دیا گیا۔اعلیٰ حکام کی ہدایت پر تھانے میں کرفیو کا سا ماحول پیدا کردیا گیا۔پولیس کی بھاری نفری اس انداز میں تعینات کی گئی جیسے یہ سیاسی قیدی نہیں بلکہ خطرناک ملزمان ہوں۔رات کے پچھلے پہر ایک مرتبہ پھر وہی مشق دہرائی گئی۔اسی طرح حوالات کے پٹ کھلے،قیدیوں کی ویگن تیار ہوئی اور ہمیں سرگودھا جیل منتقل کردیا گیا۔

پھر سرگودھا سے گرفتار ہونے والے تمام سیاسی قیدیوں کو تقریبا 700 کلومیٹر دور راجن پور جیل میں رکھنے کے احکامات جاری ہوئے۔سرگودھا سے راجن پور کا سفر ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے۔کس رفتار سے گاڑیاں چلیں،کس طرح کئی گھنٹے گاڑیوں کو ویرانے میں بلا مقصد کھڑا رکھا گیا،یہ کہانی پھر سہی،18 گھنٹوں کے طویل سفر کے بعد ہم لوگ رات گئے راجن پور جیل میں پہنچے۔ایک اذیت ناک سفر کا اختتام ہوا لیکن تکالیف کے نئے باب کا آغاز بھی ہوا،لیکن جیل کی سختیاں،سہولتوں کی عدم دستیابی،ہر وقت جدید کیمروں سے نگرانی، ملاقات کی بندش،نامناسب غذا،جگہ کی غلاظت،یہ سب چیزیں مل کر بھی ہمارے حوصلے پست نہ کر سکیں،میں محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی سے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی تک سب واقعات پر غور کرتا رہا،شاہی قلعہ کے عقوبت خانوں اور لاہور کی شاہراہوں پر سرعام کوڑے مارے جانے کے واقعات پرسوچتا رہا،جیل کے موٹے مچھروں سے لڑتے ہوئے ان لوگوں کے متعلق سوچتا رہا جو زندگی کے وسیع قید خانے میں بند ہوکر حالات سے لڑ رہے ہیں۔

ان خیالات کا تسلسل تب ٹوٹتا جب کوئی ’’پیغام بر ‘‘آتا اورقید کے دوران ہمارے حوصلے توڑنے کی کوشش کرتا۔اس مقصد کیلئے کیا لالچ دیے گئے،کن کن سزاؤں سے ڈرایا گیا، مختلف جرائم کی دفعات بتا کر دھمکایا گیا،اس کا ذکر پھر کبھی لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ عمران خان کی قیادت کا اعجاز ہے کہ کارکنان کے بجائے قائدین نے جیل کاٹی،یہ عمران خان کے ویژن کا ثمر ہےکہ ماضی میں کارکنان ہی جیل کی رونق بنتے تھے اب قائدین نےقربانیاں پیش کی ہیں۔

تحریک انصاف کے کارکنوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں،معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کی لہر پیدا ہو چکی ہے،جیلوں سے اٹھنے والی آوازوں نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے،ایک خاموش انقلاب جنم لے چکا ہے،انتخابات جب بھی منعقد ہوئے پاکستانی قوم اپنے ووٹ کی طاقت سے یہ ’’اسٹیٹس کو‘‘توڑے گی اور عمران خان ہی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرینگے۔

سیاسی جماعتوں کو بھی اب سبق سیکھنا چاہئے۔کب تک پکڑ دھکڑ کی سیاست چلے گی۔کب تک مقدمات اور پیشیاں سیاستدانوں کا مقدر رہیں گی۔پیپلز پارٹی جیسی جماعت کے اقتدار میں ہوتے کال کوٹھری کی سیاست کا جاری رہنا افسوسناک ہے اور حیرتناک بھی۔کب ہماری آنکھ کھلے گی اور کب انتقامی سیاست دم توڑے گی۔جیل کے شب و روز کیسے گزرے،وہاں کیا ہوتا رہا یہ سب جلد ایک کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔