15 مارچ ، 2023
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ججزکے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا خط پر ریمارکس دیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ حال ہی میں پیمرا نے ججزسے متعلق کوئی لیٹر ایشو کیا ہے، پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے، کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے؟ تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلزکوججزکےکنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے۔
اس پر انہوں نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں؟ سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں، آئینی ریگولیٹری باڈی ہے، پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس میں ترقی کردی، کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے؟ پیمرا ٹی وی چیلنزکو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے؟
جسٹس فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا، کیا ماتحت عدلیہ کے ججزکم ترمخلوق ہیں؟ اگرمیں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اورکورٹ رپورٹرز خبردے دیں تو ان کا چینل بندہوجائے گا؟ پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کررہا ہے، پیمرا انہی ٹی وی چینلزکے لائسنسوں پرکماتا ہے، جب ٹی وی خبریں نہیں چلاسکے گا تو لوگ سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے۔
ان کا کہنا تھاکہ پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تواسلام کے منافی ہونے پربھی معطل ہوجائے، اگرکوئی جھوٹی خبردے تو اس کےخلاف پیمرا کارروائی کرے، پیمرا کیوں سیشن، سول ججزیا مجسٹریٹ کیخلاف بولنے پر ایکشن نہیں لیتا؟ پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کا کہا اور رجسٹرار نے مقررکرنے کی زحمت ہی نہیں کی، کیا سپریم کورٹ کے جج بن جاؤ تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر140 کے قریب ہے۔