عمران خان بمقابلہ ریاست پاکستان

کیا عمران خان گرفتاری نہ دیکر بازی جیت چکے؟ عمران خان کے سپورٹرز کا یہی خیال کہ مقدس فریضہ کی ادائیگی میں وہ ریاست کو پچھاڑ چکے ہیں۔ عدالت کا ایک فیصلہ’’90روز میں الیکشن‘‘عدالتی احکامات کو عملی جامہ پہنانا جہاد اور عدالت کے حکم ’’ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری‘‘ سے بچنابھی جہاد۔

عمران خان کوسہولت کہ اپنے بچے استعمال میں نہیں جب کہ دوسروں کے بچوں کو اپنے مفاد کا ایندھن بنا رکھا ہے۔ عمران خان کو گرفتاری سے بچنے کیلئےآرٹیکل 5 ، عدالتی احکامات ، حکومتی عملداری ، رول آف لا، طاقتور کو قانون کی گرفت میں لانا ، سب کچھ پامال رکھنا ہے ۔ 25 مئی2022 ءکے لانگ مارچ کی ناکامی سے یقین ِ کامل ، ’’جنہوں نے نکالا اب وہ واپس نہیں آنے دیں گے‘‘۔تب سے الیکشن سے زیادہ مارشل لا اور ایمرجنسی کیلئے راہیں ہموار کرنا ترجیح ہے۔

امریکی مدد کا بڑھ چڑھ کر بولنا توقع کے عین مطابق ہے ۔ چند دن پہلے رُکن امریکی کا نگریس یہودی بریڈ شرمین اور CIA ایجنٹ زلمے خلیل زادخم ٹھونک کر مدد میں آ چکے بلکہ وطنی اندرونی معاملات میں مداخلت کر چکے ہیں۔ امریکہ کا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی انگڑائی لینا، آنے والے حالات کی سنگینی اورحکومت کیلئے بدشگونی کی نشاندہی ہے ۔ ایک طرف عمران خان ٹولہ ریاست پر ،دوسری طرف حکومت عوام پر’’پٹرول بموں‘‘سے حملہ آور ہو چکے ہیں۔ پٹرول 5 اور ڈیزل 13 روپے مہنگا ایسے دن ، جب کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 6 ڈالر کم ہوئی ہے۔

پچھلے 7 برسوں سے ہماری اسٹیبلشمنٹ نے جس محنت اور کاوش سے موجودہ بحران پیدا کیا ، اُس کی داد بنتی ہے۔TTP،TLP، MQMکی کامیاب لانچنگ کے بعد PTI کی لانچنگ ،اسٹیبلشمنٹ سبق کیا سیکھتی ، ریاست کو سبق سکھا چکی ہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت رُخصت ہوئی تو FATF اور IMF کا عفریت شکنجے میں لینے کو پہلے سے تیار تھا ۔آج حکومت کے ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دے رہا، ریاست کو سنبھالنامشکل ہو رہا ہے ۔سیاسی شعور والا کوئی سیاستدان، عمران خان کی چھوڑی حکومت کو چمٹے سے نہ اُٹھاتا۔ مسلم لیگ ن نے نوازشریف کی سیاست کو فروخت کر کےخواری اوررُسوائی کو اپنے ماتھے کا جھومر بنایا، چہ ارزاں فروختند۔ عمران خان سے متفق کہ ’’جنرل باجوہ کا دور غداری اور تباہی سے جُڑا تھا‘‘، شک نہیں کہ شعوری طور پر ریاست کو کمزور کرنے کیلئے مستعد رہے ۔ عمران خان بحیثیت مہرہ موجودہ حکومت کی طرح جنرل باجوہ کے ہاتھوں کھیل گیا۔

عمران خان پچھلے 5سال سے وطنی سیاسی میدان میں اکیلا،مسلم لیگ ن کی مفاہمتی سیاست نے یہ سہولت طشتری میں رکھ کر دی ہے۔موصوف آج وطنی سیاست اپنی گرفت میں لے چکاہے ۔25مئی کے لانگ مارچ کی شاندار ناکامی کے بعد بھانپ چُکا کہ الیکشن کے تلوں میں تیل نہیں ہے ۔بعد ازاں 26 نومبر کا آرمی چیف کیخلاف لانگ مارچ یا اسمبلیوں کی تحلیل یا جیل بھرو تحریک یا ریاستی اداروں پر تشدد حملے ، مقصد ریاست کو بے دم کرنا تھا۔ اندرونِ خانہ قائل کہ اسٹیبلشمنٹ کا ہدف نگراں سیٹ اَپ یاایمرجنسی یا مارشل لا رہے گا۔ اگر تشددکو ہوا دی تو اسٹیبلشمنٹ کیلئے سب کچھ ممکن رہے گا۔ جنرل باجوہ کے آخری سال یہی کچھ عزائم بھی تھے ۔جنرل باجوہ کا کیا دھرا ایک بوجھ بن چکا ہے۔جنرل عاصم کیلئے ریاست کو مشکلات سے نکالنا ایک مسئلہ بن چکا ہےجبکہ ریاست کو مشکلا ت میں ڈالنے کا ہر حربہ عمران خان کے استعمال میں ہے۔

یاسمین راشد کی اعجاز شاہ کیساتھ آڈیو ، علی امین گنڈاپور کا اپنے MPA کو پابند کرنا دونوں کا MNAs\MPAs کو 50 سے 100 بندے لانے پر اصرار کرنا ۔ اگر آتے تو تعداد لاکھ سے تجاوز کر جاتی، عملاً دو ہزار اکٹھے نہ ہو پائے۔ بُرا ہو،پولیس کے بے ڈھنگے وقت آپریشن کا اور میڈیا پر لائیو بال ٹو بال کوریج کا، مزیدعمران خان کی دل سوز ،دلگذار اپیل کہ ’’دیکھو! مجھے گرفتار کرنے آئے ہیں‘‘۔ وطنی طول و عرض سے آئے چند ہزار شدت پسند اور جذباتی نوجوانوں کے جذبات بھڑکے اور ریاست پر حملہ آور ہوگئے، عملاً ریاست کیخلاف دن دہاڑے بغاوت تھی۔

لاہور ہائی کورٹ نے پولیس کو جمعہ صبح 10 بجے تک آپریشن روکنے کا حکم دیا تو جنگ بندی کے دوران کارکن دوبارہ تازہ دم ہوچکے ہیں۔غلیلیں، ڈنڈے ،پتھر اور ’’پٹرول بم‘‘ کا کثیر ذخیرہ دوبارہ اکٹھا کرنے کا موقع مل گیا ہے۔جمعہ کو جب طبل جنگ بجا تو نہتی پولیس ایک بار پھر ترنوالہ بنے گی۔عارضی جنگ بندی پر عمران خان کا باہر آ کر جتھے کی حوصلہ افزائی کرنا، شاباش دینا، عزائم کو آشکار کر گیا۔

عمران خان کا بیان حلفی کہ ’’مجھے گرفتار نہ کرو میں18 مارچ کو پیش ہو جاؤں گا‘‘، سو پیاز بھی سو جوتے بھی۔ سیکورٹی کا بہانہ کہ جان کو خطرہ ہے ۔ اس سے پہلے نوازشریف ، بے نظیر، فضل الرحمان درجنوں دہشت گردی کا شکاربنے، 1997 میں نوازشریف کی کار رائیونڈ پل پر پہنچی تو ٹائم بم نے بھگتیاں پل اُڑا دیا ۔ نوازشریف آدھے سیکنڈ سے بال بال بچے۔ بینظیر بھٹو کی ریلی کو بم سے اُڑا دیا گیا۔ بینظیر شہید نے شہر شہر جا کر لواحقین سے تعزیت کی ۔ فضل الرحمان پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ کسی ایک نے سیاسی فائدے کیلئے ہمدردی کی بھیک نہیں مانگی۔

جب سے حکومت چھوڑی جھوٹ پر گزراوقات ہے۔ کل رات BBC کو انٹرویو دیا کہ’’میری گرفتاری رُول آف لا کی بجائےجنگل لا ہے‘‘۔جھوٹ بولا کہ’’18 مارچ تک ضمانت پر ہوں‘‘جبکہ 13 مارچ کو حاضرنہ ہونے پرعدالت نے دوسری دفعہ گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

تحریک انصاف کے قابل ذکر لیڈر پردۂ سمیں سے غائب رہے کہ عمران خان کی پُر تشدد سیاسی حکمت عملی سے متفق نہیں تھے۔ یاسمین راشد اورعارف علوی کی آڈیو لیکس ، ’’کارکنوں کے پٹرول بم حملوں سے پولیس کی لاشیں گر سکتی ہیں، کسی طریقے اُن کو روکا جائے‘‘۔ دوباتیں عیاں ، عمران خان کی حکمت عملی سے باقی قیادت لاعلم،دوسرا بے بس اور پریشان کہ ’’عمران خان کو کوئی کیسے سمجھائے کہ تشدد کی بجائے قانون اور عدالت کے سامنے ہتھیارڈالنا ہوں گے‘‘۔ حیف! عمران خان اپنے سپورٹرز کو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف اُکسا چکے ہیں۔اپنی لڑائی عمدہ طریقہ سے لڑ رہے ہیں۔

 انتظامیہ اور پولیس کی حکمت عملی اس لحاظ سے کامیاب کہ عمران خان کو لاشوں کا تحفہ نہیں ملا ۔ عمران خان کا ملک کو مارشل لا اور ایمرجنسی کے حوالے کرنے کا خواب اب تک تتر بتر رہا ہے۔ ناقابل تلافی نقصان اتنا کہ پُرتشدد جتھوں کے ذریعہ ریاست کو اپاہج کرنے کی ریت جنم لے چکی ہے۔ نامساعد بین الاقوامی تناظر میں پاکستان نا ممکنات کے بھنور میں پھنسا ہے ۔ یہی کچھ عمران خان چاہتا ہے کہ اپنے سیاسی میدان سے نکلنے سے پہلے ریاست کو دوزانو دیکھے تب ہی تو اسٹیبلشمنٹ نے سر نگوں ہونا ہے۔ کیا عمران خان دوسرا رائونڈ بھی جیت چکا ؟ اسٹیبلشمنٹ سے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہو گیا ہے؟ ـ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں‘‘۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔