ریاستی رٹ کا مذاق

آئین پاکستان کانہایت اہم آرٹیکل5مملکت سے وفاداری، آئین اور قانون کی اطاعت سے متعلق ہے۔ اس آرٹیکل میں دو شقیں ہیں۔ پہلی شق یہ ہے کہ مملکت سے وفاداری ہر شہری پر لازم اور ہر شہری کا فرض ہے، دوسری شق آئین اور قانون سے متعلق ہے۔ اس شق کے مطابق ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ خواہ وہ کہیں بھی ہو اور ہر اس شخص پر جو فی الوقت پاکستان میں موجود ہو آئین اور قانون کی اطاعت کرے۔ یہ ہر پاکستانی کی واجب التعمیل ذمہ داری اور فرض ہے۔ لیکن دنیا نے دیکھا کہ لاہور کے زمان پارک میں کیا ہوا۔

ہم نے اس سے پہلے ریاستی رٹ کا ایسا تماشا کبھی نہیں دیکھا ۔ سیاست دانوں کو گرفتار ہوتے دیکھا ہے۔ سیاست دانوں کی عدالتوں میں پیشیاں دیکھی ہیں انہیں جیل بھگتتے بھی دیکھا ہے۔ حتیٰ کہ ایک معروف سیاسی رہنما کو تختہ دار پر بھی دیکھا ہے۔ لیکن یہ تماشا اور ریاستی رٹ کا یوں مذاق اڑاتے کسی کو نہیں دیکھا۔ عمران خان نے تو کمال ہی کر دیا ۔ 

ملک کو معاشی اور اخلاقی طور پر برباد کرنے کے علاوہ سیاست کے نام پر تمام حدیں پار کر کے سیاسی اطوار ہی بدل کے رکھ دیئے۔ عمران خان سےاداروں کی اہم ترین شخصیات پر لفظی حملے کرنے پر کچھ بھی نہیں پوچھا گیانہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی بلکہ ان کو ریلیف ہی ملتا رہا۔ اسی وجہ سے ان کے حوصلے اس حد تک بلند ہوگئے کہ انہوں نے ریاستی رٹ اور قانون کی عملداری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ اس کا عملی مظاہرہ بھی کر دکھایا۔ یہی کام الطاف حسین اور لال مسجد والوں نے بھی کیا تھا۔ لیکن ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دنیا نے دیکھ لیا۔ تو پھر عمران خان کے ساتھ کیوں نہیں؟

دوسری جانب پولیس نے ربڑ کی گولی بھی نہیں چلائی۔ آنسو گیس کا استعمال تو پوری دنیا میں قانون مخالف مجمع کو منتشر کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ پولیس وہاں صرف عمران خان سے عدالتی نوٹس وصول کرانے گئی تھی ان کی گرفتاری تو مقصود ہی نہیں تھی۔ اسی لئے تو پولیس وہاں عدالت میں پیشی کی تاریخ سے چار دن پہلے گئی تھی۔ اور صرف اسلام آبادپولیس کے چند افسر اور اہلکار گئے۔ عمران خان کی عزت کی خاطر اسلام آباد کے ڈی آئی جی بھی ان کے ساتھ گئے تھے، جنہیں حملہ کر کے زخمی کیا گیا۔ پولیس نے گولی تو درکنار کسی کو لاٹھی بھی نہیں ماری۔ اگر گرفتاری مقصود ہوتی تو پھر اس کے طریقے بھی تھے۔

 اور اگر بالفرض عمران خان کو گرفتار کر بھی لیا جاتا تو دوسرے دن ان کی ضمانت ہو جاتی۔ یہ گرفتار کرنے والے بھی جانتے تھے اور شاید عمران خان خود بھی جانتے ہوں گے۔ پھر قوم کے بچوں کی زندگیوں کو داؤپر لگانے، سرکاری اور قومی املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے یہ تماشا لگانا، چہ معنی دارد۔ کیا وہ یہ دکھانا چاہتے تھے کہ ان کے آگے ریاستی رٹ اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یا اس تماشے کے اور بھی مقاصد تھے۔ اس ڈرامے کے اختتام پر خود عمران خان اور پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں نے کارکنوں کو شاباشیاں دیں۔ لیکن اس تماشے کے آگے کیا اثرات ہوں گے؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

اس وقوعے کے دوران پی ٹی آئی کی خاتون رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ اور صدر مملکت عارف علوی کے درمیان ٹیلی فونک بات چیت کی آڈیو سامنے آئی۔ یہ گفتگو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس گفتگو سے بہت سی چیزیں عیاں ہوئیں۔ پہلی چیز تو یہ کہ مذکورہ خاتون رہنما نہیں چاہتی تھیں کہ خون خرابہ ہو۔ اگرچہ وہ خون خرابے کو انتخابات کے التوا کا باعث سمجھتی تھیں یعنی ان کو انسانی جانوں کی کم اور انتخابات کے التوا کی زیادہ فکر تھی۔مذکورہ خاتون رہنما کی گفتگو سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ کس قدر مایوس اور بے بس تھیں اور چاہتی تھیں کہ عمران خان حالات کو خون خرابے تک پہنچانے کے بجائے گرفتاری دے دیں۔ وہ یہ ہمت نہیں رکھتی تھیں کہ یہ بات خود عمران خان سے کہتیں۔

اس دوران عمران خان نے ایک نیا الزام لندن پلان کے نام سے لگایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں نے ان پر مبینہ قاتلانہ حملہ کرایا تھا وہی اب مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں اور جنہوں نے لندن پلان بناتے وقت نواز شریف کو یقین دہانیاں کرائی ہیں یہ ان ہی کی کارستانی ہے۔

 یہ سب سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا اشارہ کس طرف ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا طاقتور قانون سے بالاتر اور مبرا ہیں۔ کیا آئین کے آرٹیکل5کو نہ ماننے اور قانون کو پیروں تلے روندنے والے ریاست سے زیادہ طاقتور ہیں؟ کیا اب اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ جو جتھے اکٹھے کر سکتا ہے اس کے سامنے ریاست و قانون بے بس ہے۔ یقیناً ایسا ہرگز نہیں ہے۔ قانون یہ ضرور دکھائے گا کہ اس تماشے کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کر سکے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔