بلاگ
Time 24 مارچ ، 2023

چین، ایک نئی سفارتی سپر پاور

چین کے تیسری مرتبہ منتخب صدر شی چن پنگ روس کے اہم دورے پر ماسکو میں موجود ہیں جہاں انہوں نے اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن سے تین گھنٹے طویل ملاقات کی ہے۔

یوکرین  روس کشیدگی کے تناظر میں عالمی میڈیا میں مذکورہ دورے کو بہت زیادہ اہمیت دی جارہی ہے جس کی بڑی وجہ حالیہ دنوں میں چین کا مڈل ایسٹ کے دو کٹر مخالف ممالک سعودی عرب اور ایران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کیلئے قائدانہ کردار ادا کرنا ہے۔

عالمی تاریخ پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں سے سعودی عرب اور ایران اسلامی دو ایسے ممالک ہیں جو نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے خلاف ہر محاذ پر متصادم ہیں، دونوں ممالک کی بڑھتی ہوئی مخالفت کی بناپر سفارتی تعلقات بھی تعطل کا شکار تھے لیکن اب دونوں ممالک نے سرزمین چین پر کھڑے ہوکر تعلقات کی بحالی کا اعلان کرکے عالمی برادری کو حیران کردیا ہے میری نظر میں اس موقع پر چینی وزیر خارجہ کا بطور ضامن موجود ہونا چین کی عظیم سفارتی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

 چینی صدر کے دورہ روس سے قبل ہی عالمی میڈیا میں قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ چین اب روس اوریوکرین کے مابین ثالثی کا کردار اداکرنے کا خواہشمند ہے، عالمی تجزیہ کار روس اور یوکرین کے تنازع کو ماضی میں سویت بلاک اور امریکہ کی قیادت میں مغربی بلاک کے درمیان سرد جنگ کی ہی ایک کڑی سمجھتے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ یوکرین کی جانب سے روس مخالف نیٹو میں شمولیت کی خواہش نے ہی روس کو مجبور کیا تھا کہ وہ سابقہ سویت ریاست کے خلاف اعلان ِ جنگ کر ے، بدقسمتی سے آج روس یوکرین جنگ کو ایک سال بیت گیا ہے لیکن نہ ہی روس یوکرین پر مکمل فتح حاصل کرسکا اور نہ ہی نیٹو اور مغربی ممالک جنگ زدہ یوکرائن کو تباہ حالی سے بچانے کیلئے آگے آئے ہیں۔

 ایسے حالات میں اگر کوئی تیسرا ملک جنگ بندی کیلئے سنجیدہ نظرآتا ہے تو وہ چین ہے جس کے کریڈٹ پر تجارتی فتوحات پہلے ہی موجود ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین کے روس اور یوکرین کے ساتھ قریبی تعلقات کی بناء پر دونوں ممالک چین کو ایک قابلِ قبول کردار دینے پر متفق ہیں،چینی صدر کے دورہ ماسکو سے قبل پوتن کا ایک خصوصی کالم چین کے موقر روزنامہ ’’پیپلز ڈیلی‘‘کی زینت بنا ہے جس میں انہوں نے نیٹو کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے چین سےدوطرفہ تعلقات کی اہمیت اجاگر کی ہے، روسی صدر کا مؤقف ہے کہ روس اور چین بالادستی کے خواہاں کچھ ممالک کے مذموم مقاصد کا باہمی طور پر مقابلہ کررہے ہیں، مشترکہ خطرات کا سامنا کرنے والے روس اور چین کو دوطرفہ تجارت کیلئے اپنی کرنسی کو فروغ دینا چاہئے، انہوں نے یوکرائن ایشو پر چین کیلئے مثبت کلمات ادا کرتے ہوئے سنجیدہ مذاکرات پر آمادگی کا بھی عندیہ دیا تھا۔ 

دوسری طرف یوکرین نے چینی صدر شی جن پنگ کی ماسکو آمد پرجنگ بندی کیلئے چین سے اپنا کردار ادا کرنے کا باضابطہ مطالبہ کردیا ہے،یوکرین کی وزارت خارجہ کا بیان منظرعام پر آیا ہے کہ یوکرین چینی صدر کے دورہ روس کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے اور توقع کرتاہے کہ چین یوکرائن کے خلاف جنگ ختم کرانے کیلئے روس پر دباؤ ڈالے گا،یوکرین امن کے قیام کیلئے چین کے ساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنرل اسمبلی کی تازہ ترین قرارداد کے مطابق ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے،تاہم یوکرائنی حکومت کا مؤقف ہے کہ قیام ِامن کیلئےیوکرین کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہوئے روسی افواج کا مکمل انخلاء یقینی بنایا جائے۔

میری نظر میں چین کے بڑھتے ہوئے بین الاقوامی کردار کی سب سے بڑی وجہ عالمی تجارت کو فوقیت دینا ہے، چین ایک طرف تائیوان کو اپنا باغی صوبہ قرار دیتا ہے لیکن تجارتی مقاصد کیلئے تائیوان کے شہریوں کیلئے خصوصی پرمٹ بھی جاری کرتا ہے،امریکہ کے ساتھ عالمی ایشوز پر مخالفت بھی رکھتا ہے لیکن تجارت میں کمی نہیں آنے دیتا، چین اگر ایک طرف بھارت کابڑا تجارتی پارٹنر ہے تو دوسری طرف سی پیک منصوبے کے تحت پاکستان میں بھی بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے،چند سال قبل جب بھارت کے ساتھ سرحدی جھڑپیں جاری تھیں تو عین انہی لمحات چین کے تجارتی کنٹینر بھارت کی حدود میں رواں دواں تھے۔

آج اگر چین روس اور یوکرین کو قریب لانا کسی نئے بریک تھرو کا باعث بنتا ہے تویہ اس امر کی عکاسی ہوگا کہ اب اکیسویں صدی میں چین بطور نئی سپرپاوراپنے دور کا باضابطہ آغاز کرنے جارہا ہے ، میری نظر میں چین پرامن اقتصادی تعلقات کی وجہ سے اتنے زیادہ اثرورسوخ کا مالک بن گیاہے کہ عالمی سطح پرمخالفین کو ڈائیلاگ کی میز پر بٹھا کر صلح صفائی کروارہا ہے۔

امید کی جانی چاہئے کہ چینی صدر کے دورہ ماسکو سے روس یوکرین جنگ بندی کی راہ ہموار ہوگی اور عالمی ممالک آپس کے تنازعات کو ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرکے اپنی توانائیاں انسانیت کی خدمت کیلئے وقف کریں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔