Time 03 اپریل ، 2023
صحت و سائنس

وہ 5 غذائیں جو رمضان میں پیاس کا احساس اور تھکن نہیں ہونے دیں گی

وہ افراد جنہیں صحت کے مسائل ہیں، انہیں یہ مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے، کیونکہ رمضان کی روٹین میں انسان کا سونا انتہائی کم ہوجاتا ہے__فوٹو: فائل
وہ افراد جنہیں صحت کے مسائل ہیں، انہیں یہ مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے، کیونکہ رمضان کی روٹین میں انسان کا سونا انتہائی کم ہوجاتا ہے__فوٹو: فائل

ماہ مبارک کا دوسرا عشرہ شروع ہوچکا ہے، دن بھر روزہ رکھنے کے بعد بعض لوگوں کے جسم میں کمزوری ہوجاتی ہے جس سے انہیں مسلسل تھکاوٹ کی شکایت رہتی ہے، اس کے علاوہ رمضان میں پیاس بھی اہم ہے۔

وہ افراد جنہیں صحت کے مسائل ہیں، انہیں یہ مسئلہ زیادہ پیش آتا ہے، کیونکہ رمضان کی روٹین میں انسان کا سونا کم ہوجاتا ہے۔

آج ہم آپ کو ایسی غذائیں یا کھانے بتائیں گے جو رمضان کے دوران آپ کو تھکن سے بچائیں گے اور پیاس بھی نہیں لگنے دیں گے۔

 پالک

پالک اور گوبھی جیسی سبزیاں  کاربوہائیڈریٹس، فائبر اور ضروری وٹامنز اور معدنیات سے لیس ہوتی ہیں، اسے کھانے سے انسانی جسم میں بھرپور توانائی آتی ہے، لہٰذا  جتنا ہوسکے رمضان میں پالک کا استعمال کریں۔

کھجوریں

رمضان میں کھجور کو افطار کے وقت کھایا جاتا ہے چونکہ کھجور سے روزہ افطار کرنا سنت بھی ہے، لیکن معمول بنالیں کہ افطار سے سحر تک 5 سے 6 کھجوریں لازمی کھائیں۔

قدرتی مٹھاس ہونے کی وجہ سے کھجور جسم کو توانائی فراہم کرتی ہے،  اس کے علاوہ یہ فائبر اور ضروری معدنیات پوٹاشیم، میگنیشیم کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔

کیلے اور سیب

کیلے اور سیب کا شمار ان پھلوں میں ہوتا ہے جو فائبر سے بھرپور ہوتے ہیں،  ان میں ایسے وٹامنز اور معدنیات ہوتے ہیں جو قوت مدافعت کو بڑھانے، پیاس کو کم کرنے اور پانی کی کمی نہیں ہونے دیتے۔

 دہی

پروٹین اور کیلشیم سے مالا مال دہی ایک مکمل غذا ہے، اس میں پروبائیوٹکس ہوتے ہیں جو آنتوں کی صحت کے لیے بہترین ہوتے ہیں۔ 

دہی ہڈیوں کے لیے بھی مفید ہے، یہ انسانی جسم کو تھکن سے بچاتا ہے، اس کے علاوہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے سحر میں کھانے سے پیاس نہیں لگتی۔

شکرقندی

میٹھی شکر قندی کسے نہیں پسند؟ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ صحت کے لیے کتنی مفید ہے؟

پوٹاشیم، وٹامن اے ، سی اور بی 6  سے بھرپور شکر قندی کو  ابال کر یا تیل کے بغیر فرائی کر کے استعمال کرنا چاہیے۔ 

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :