فیکٹ چیک: سپریم کورٹ کے ججز کی تنخواہیں اور مراعات کیا ہیں؟

سپریم کورٹ کے جج تنخواہوں کے علاوہ میڈیکل، سفری اور یومیہ الاؤنس، گاڑیاں، اعلیٰ عدالتی الاؤنس اور ہاؤس رینٹ الاؤنس وصول کر رہے ہیں۔

متعدد سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اپنی پوسٹس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کا ایک جج بنیادی مراعات سمیت ماہانہ 17 لاکھ سے زیادہ وصول کرتا ہے۔

یہ دعویٰ بالکل درست ہے۔

دعویٰ

27 جنوری کو ایک ٹوئٹر صارف نےاپنی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک جج کو ماہانہ 18 لاکھ روپے تنخواہ ملتی ہے۔

ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں مزیدیہ بھی دعویٰ کیا کہ[اس میں] 800,000تنخواہ، 370,000گھر کا کرایہ، دو لگژری گاڑیاں، دو ڈرائیورز، 600 لیٹر پٹرول، 5,000 یومیہ سفری الاؤنس اور رعایتی ہوائی جہاز کے ٹکٹ شامل ہیں۔

”قانون کی حکمرانی کے انڈیکس کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے۔ “

اسی طرح کے دعوےدیگر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے بھی کئے گئے کہ ایک جج تقریباً 16 لاکھ روپے ماہانہ گھر لےکر جاتا ہے۔

حقیقت

یہ سچ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس اس وقت دیگر مراعات اور سہولیات سمیت 17 لاکھ روپےماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں۔

وزارتِ قانون و انصاف کے ایک سینئرآفیسر نےاپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ٹیلی فون پر جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ چیف جسٹس ماہانہ 1,024,324روپے گھر لے کرجاتے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کے ہر جج کو 967,638روپے ملتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ” یہ[تنخواہ] یکم جولائی 2021ء سے ایپلیکیبل [لاگو] ہے اور ابھی یہ چل رہی ہے۔ “

سینئر آفیسرنے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ اس کے علاوہ چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججز کو بھی 428,040روپے ماہانہ سپیریئر جوڈیشل الاؤنس ملتا ہے۔

دیگر ماہانہ مراعات میں ایک جج کے لیے 600 لیٹر پیٹرول اور 1,800سی سی دو گاڑیاںبمعہ ڈرائیورز شامل ہیں،جبکہ چیف جسٹس کو 2400 سی سی گاڑی الاٹ کی گئی ہے۔اس کے علاوہ68,000 ہاؤس رینٹ الاؤنس اور شہر سے باہر جانے پر 8,000 روپے یومیہ سفری الاؤنس بھی شامل ہے۔

ایک اورآفیسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرجیو فیکٹ چیک کو تصدیق کی کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو میڈیکل کے لئے ماہانہ 69,035روپے ادا کیے جاتے ہیں۔

تاہم، کوئی بھی آفیسرکسی جج کو بجلی اور ٹیلی فون کے لئے فراہم کی گئی درست رقم کی تصدیق نہیں کر سکا۔

اس طرح تنخواہ اور مراعات ملا کر تقریباً 17 لاکھ روپے ماہانہ بنتےہیں۔

پریزیڈینشل آرڈر نمبر2، 1997 جو کہ عدالت عظمیٰ کے ججوں کی چھٹی، پنشن اور مراعات سے متعلق ہے۔اس آرڈر کے مطابق ہاؤس رینٹ الاؤنس، کار الاؤنس، اعلیٰ عدالتی الاؤنس اور دیگر الاؤنسز کی رقم پر ٹیکس عا ئد نہیں ہے۔

جیو فیکٹ چیک نے اس معلومات کی تصدیق کے لئے اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو (AGPR) کو ایک تحریری سوالنامہ بھی بھیجا ۔

اے جی پی آر کے لیگل-II سیکشن کے اکاؤنٹس آفیسر نے اس سوالنامے کے جواب میں لکھا کہ جیو فیکٹ چیک کو سپریم کورٹ آف پاکستان سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اے جی پی آر کے ایک آفیسر نے ٹیلی فون پر بتایا کہ یہ معلومات ”محفوظ“ہیں اور اے جی پی آریہ معلومات فراہم نہیںکر سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری معلومات وزارت خزانہ سے لی جا سکتی ہیں۔

جب وزارت خزانہ سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جیو فیکٹ چیک کو وزارت ِقانون و انصاف سے رابطہ کرنے کو کہا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کا جواب 5 اپریل کو موصول ہوا:

جیو فیکٹ چیک نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے رجسٹرار کو بھی 27مارچ کو خط لکھا جس کاتحریری جواب سپریم کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار کی جانب سے 5 اپریل کو موصول ہوا۔ تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ججوں کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2017ءکے تحت معلومات حاصل کرنے کی درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ایکٹ 2017 ءکے تحت صرف ”پبلک باڈی“ کے پاس موجود معلومات اور ریکارڈ تک رسائی ممکن ہے۔

اسسٹنٹ رجسٹرارنے چیف جسٹس آف پاکستان کی منظوری سےمزید لکھا کہ”اگرچہ ایکٹ 2017 میں ’پبلک باڈی ‘کی تعریف بہت جامع ہے، لیکن پھر بھی مقننہ نے اپنی حکمت کے مطابق اس عدالت کو مذکورہ تعریف کے دائرے میں شامل نہیں کیا اور اسے ایکٹ کے دائرہ کار سے خارج کر دیا۔ “

ہمیں@GeoFactCheck پر فالو کریں۔

اگرآپ کو کسی بھی قسم کی غلطی کا پتہ چلے تو [email protected] پر ہم سے رابطہ کریں۔

اپ ڈیٹ: مضمون کی اشاعت کے بعد 10 اپریل کو اسسٹنٹ رجسٹرار کی طرف سے جواب موصول ہوا، جواب کو بعد میں مضمون کے تازہ ترین ورژن میں شامل کردیا گیا ہے۔