بلاگ
Time 05 اپریل ، 2023

پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات ہوں گے؟

منگل کو سپریم کورٹ نے پنجاب میں 14مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ سنایا ہے لیکن سوال بدستور وہی ہے کہ آیا انتخابات اعلانیہ تاریخ پر ہوں گے؟

فیصلہ سنانے والے تین رکنی بینچ کی تشکیل پر شدید تنازع کے دوران فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے تین اہم اسٹیک ہولڈرز (حکمران پی ڈی ایم اتحاد، الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز) کو ناراض کر دیا ہے۔

توقع ہے کہ الیکشن کمیشن کا اجلاس جلد ہوگا جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر غور و خوص کیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن آئینی اور عدالت کی مثل ایک ادارہ ہے۔ 22؍ مارچ کو کیے گئے فیصلے میں الیکشن کمیشن نے پنجاب اور کے پی میں الیکشن 8؍ اکتوبر 2023ء تک کیلئے ملتوی کر دیے تھے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے اسے غیر آئینی، قانون اور اختیار سے بالاتر قرار دیا اور اسے کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے کا کوئی قانونی اثر نہیں ہوگا۔

سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کو آئین اور نہ ہی قانون اس بات کا اختیار دیتا ہے کہ وہ الیکشن کیلئے آئین کے آرٹیکل (2) 224 میں وضع کردہ 90؍ دن کی شرط سے زیادہ کی تاریخ دے۔

رابطہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے ذرائع نے بتایا کہ جیسے ہی کمیشن کا اجلاس ہوگا، یہ معاملہ پیش کیا جائے گا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن فیصلہ کرے گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اس کے پاس کیا آپشنز ہیں۔ ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ کمیشن چاہے تو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرے یا اپنے فیصلے کو سپریم کورٹ کی جانب سے غیر آئینی قرار دینے پر اس کیخلاف نظرثانی پٹیشن دائر کرے۔

انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ کس طرح پنجاب میں الیکشن کی تاریخ (14مئی) اور انتخابی شیڈول کا اعلان کر سکتی ہے کیونکہ یہ کام آئین کے مطابق الیکشن کمیشن کا ہے۔ ذریعے نے کہا کہ پنجاب کیلئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا ہے جبکہ کے پی کا معاملہ چھوڑ دیا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پنجاب میں الیکشن میں تاخیر کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ سیکورٹی اہلکاروں کی مطلوبہ تعداد دستیاب نہیں۔ ذریعے کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت نے کمیشن کو بتایا تھا کہ اس کے پاس ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کی کمی ہے اور موجودہ حالات میں وہ ایک پولنگ اسٹیشن پر بمشکل ایک پولیس والا ہی تعینات کر سکتی ہے۔

اس طرح کے حالات میں کمیشن پولنگ اسٹیشن کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے؟ فوج کو الیکشن ڈیوٹی پر لگانے کے حوالے سے کمیشن کو دفاعی حکام نے بتایا تھا کہ وہ اپنی حساس بنیادی ذمہ داریوں پر سمجھوتا نہیں کر سکتے اور ملک و قوم کے دفاع اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے والے فوجیوں کو الیکشن ڈیوٹیز پر نہیں لگا سکتے۔

الیکشن کمیشن کے ذریعے نے سوال کیا کہ کیا اب دفاعی حکام فوجیوں کو الیکشن ڈیوٹیز پر لگانے کیلئے آمادہ ہو جائیں گے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے فوراً بعد اتحادی حکومت نے کابینہ کا اجلاس منعقد کیا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا۔

حکومت اگرچہ سیاسی سطح پر یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتی ہے لیکن آئینی طور پر اس کا فرض ہے کہ وہ فیصلے پر عمل کرے یا نظرثانی پٹیشن دائر کرے۔ آپشنز پر غور کے حوالے سے کابینہ نے مبینہ طور پر قانونی ماہرین سے کہا ہے کہ وہ اس صورتحال کے پیش نظر کیا آئینی اور قانونی راستے دستیاب ہیں تاکہ پنجاب میں 14؍ مئی الیکشن سے گریز کیا جا سکے۔

حکمران اتحاد پی ڈی ایم کے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بھی بدھ کو ہونے والا ہے جو مستقبل کی سیاسی اور قانونی حکمت عملی پر غور کریں گے۔ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے میں سپریم کورٹ کے اپنے اندر جاری خلیج کو بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اختلافی ججز کے اختیار کردہ موقف کو مسترد کیا گیا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہماری توجہ کچھ ایسے معاملات کی جانب مبذول ہوئی ہے جو اس عدالت سے متعلق ہیں (ایس ایم سی 1/2023 اور سی پی نمبر ایک اور 2/2023) اور ان کی سماعت ہوئی اور یکم مارچ 2023ء کو پانچ رکنی بینچ نے اکثریتی 3:2 (جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر ۔۔ اختلاف میں جسٹس منصور علی شاہ اور جمال خان مندوخیل) کا فیصلہ سنایا۔

بالخصوص، ہماری توجہ اقلیتی دو فاضل ججز کی جانب سے پیش کردہ مفصل وجوہات (جاری کردہ 27؍ مارچ 2023) کی جانب گئی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ معاملات کا فیصلہ (اور انہیں مسترد کیا جا چکا)4:3 کی اکثریت سے ہو چکا۔ مودبانہ انداز سے، ہم یہ کہتے ہیں کہ اقلیت میں فاضل جج صاحبان نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ غلط ہے اور قانون کی رو سے پائیدار نہیں۔

ہماری توجہ 29؍ مارچ 2023ء کو سنائے گئے فیصلے پر بھی گئی جو ایس ایم سی 4/2022 میں ہے جو تین رکنی بینچ کی جانب سے اکثریتی 2:1 (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس امین الدین خان جبکہ اختلاف میں جسٹس شاہد وحید) فیصلہ تھا۔

موجودہ معاملے کی سماعت، اور اس بنچ کا فیصلہ مذکورہ بالا اکثریتی فیصلے میں پیش کردہ مشاہدات سے مکمل طور پر متاثر نہیں ہوتا۔‘‘ اب وقت ہی بتائے گا کہ سپریم کورٹ کے ’’اختلاف رکھنے والے‘‘ ججز سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر کس رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔